کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 3
بھی رہنمائی طلب مسئلہ میں پارلیمنٹ کو سفارش پیش کرے، اور اگر اسے کونسل کی سفارش سے قبل نافذ کردیا جائے تو کونسل کی سفارش کے مطابق اسمبلی اسپر نظرثانی کرنے کی پابند ہوگی۔[1]
کونسل مذکور نے 28،29 مئی 2013ء کو منعقدہ اپنے 191 ویں اجلاس میں بعض اہم اُمور پر سفارشات کی ہیں، جن کی اہمیت وافادیت کو سمجھے بغیر، سیکولر طبقہ اور بعض ملحدین ان سفارشات کوتنقید کا نشانہ بنا رہےہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے بیانات ،مضامین ، رپورٹیں، تبصرے اور سروے سامنے آنے لگے،سوشل میڈیا میں اس مسئلہ کو اُچھالا گیااور حقائق کو جانے بغیریہ لوگ اسلامی نظریاتی کونسل کو کوسنے اور علما کو دقیانوس اور قدامت پرست ہونے کاطعنہ دینے لگے۔... آئیے دیکھیں کہ نظریاتی کونسل کی سفارش کیا ہے، اس پر کیا تنقید کی جارہی ہے اور تنقید کے پس پردہ مقاصد ومضمرات کونسے ہیں؟ نیز اصل مسئلہ کی شرعی اور قانونی حقیقت کیا ہے؟ روزنامہ جنگ لاہور میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے:
''اسلام آباد...اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ زنا بالجبر کے معاملے میں ڈی این اے ٹیسٹ بطورِ شہادت قابل قبول نہیں، البتہ اسے ضمنی شہادت کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ کونسل نے قرار دیا ہے کہ زنا بالجبر کے جرم کے تعین، حد اور قصاص کے لیے اسلام نے طریقہ کار طے کررکھا ہے، ڈی این اے ٹیسٹ صرف ضمنی شہادت کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کا کہناہے کہ زنا بالجبرمیں ڈی این اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے کیونکہ زنا ایک ایسا جرم ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے بہت احتیاط ضروری ہوتی ہے ،ڈی این اے ٹیسٹ وہاں کافی نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے مزید سفارش کی ہے کہ توہین رسالت کے موجودہ قانون میں تبدیلی نہ کی جائے،تاہم اس پر کونسل مزید غور کرے گی۔''
مذکورہ بالا اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے دو ریٹائر ڈ جج حضرات: جسٹس نذیر اختر اور جسٹس مشتاق میمن کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ممبر علما نے شرکت کی جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سینیٹر مولانا محمد خاں شیرانی کی زیر صدارت یہ اجلاس منعقد ہوا۔کونسل کی ویب سائٹ پر جاری 29 مئی 2013ء کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ
'' اجلاس میں ملک بھر میں ہونے والی نصابی تبدیلیوں بالخصوص صوبہ پنجاب کے
[1] دستور پاکستان 1973ء کی دفعہ نمبر230 کی تین شقوں میں درج نظام کا خلاصہ