کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 25
قرآن و سنت کے مجموعی دلائل کو سامنے رکھیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اُمتِ مسلمہ میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گےجو حق پر قائم رہ کر توحید کی نعمت کو سینوں سے لگائے رکھیں گے اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو راہِ راست سےبھٹک کر شرک و خرافات کی ظلمت میں صراطِ مستقیم کوکھو دیں گے۔ماضی میں لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو بھی یہی حقیقت کھلتی ہے ۔علما و ائمہ دین نے اپنے اپنے زمانوں میں اس صورتِ حال کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو آشکار کیا اور اس کے سدباب کے لئے کوششیں بھی کیں اور عصر حاضر میں بھی حالات یہی گواہی دے رہے ہیں بلکہ اب تو زہر ہلاہل کو قند کے نام سے پیش کرکے یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں شرک پایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور نہ ہمارے اس دور میں اس کا کوئی خوف ہے لیکن جب مدمقابل کے جوابات اور دلائل کے سامنے اُنہیں اپنی بے بسی صاف نظر آتی ہے تو مختلف پینترے بدلتے ہوئے موجود دور میں اس ا ُمّت کے اندر شرک ِخفی پائے جانے کا اقرار کرتے ہوئے شرک اکبر کو قربِ قیامت کے سا تھ خاص قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی مجبور ہوکر ہمارے اس دور میں بھی شرک اکبر کے پائے جانے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں شرک اکبر ہو ا بھی توقلیل مقدار میں ہوگا یعنی نہ ہونے کے برابر،اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس دور میں یہ امت مسلمہ کا (اہم) مسئلہ ہو۔اور پھر جاہل عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے بعض احادیث کامفہوم و مطلب بگاڑ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں یہی تو خالص توحید ہے لیکن حقیقت میں یہ ایسی شیطانی چال ہے کہ لوگوں کے سامنے بَدی بھی نیکی کے رنگ میں اس طرح پیش کی جائے کہ دلوں سے احساسِ گناہ ہی جاتا رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق اس اُمت میں سے بھی لوگ پہلی اُمتوں کے نقش قدم پرچل کر شرک و بدعات کی گمراہی میں مبتلا ہوگئے، اس کا مشاہدہ مزارات، آستانوں اور درگاہوں پر بخوبی کیا جاسکتا ہے اور اس کو سندِ جواز بخشنے بلکہ صراطِ مستقیم قرار دینے کے لئے اس کے دل دادہ حضرات جو عذرِ گناہ تراش رہے ہیں، یہ بھی اہل علم و نظر پر مخفی نہیں ہے۔ سردست بعض حضرا ت کی طرف سے اپنے اس دعویٰ کے اثبات کے لئے جو بعض شبہات پیش