کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 23
عن فلسفة التشريع الغربي العلماني غالبًا ما تكون مرتبطة إما بالزنا أو بعمليات الاختلاط التي تحدث عمدًا أوخطأ في حالات الولادة[1]
''ڈی این اے کو زنا میں معتبر شہادت کے طورپر قبول نہ کرنے کی وجہ اس کی سائنسی حقیقت کے اعتراف میں شک کرنا نہیں ہے، بلکہ درحقیقت شریعتِ اسلامی کا فلسفہ ثبوت مغرب کے سیکولر قانون کے اس نظریے سے کلی مختلف ہے جس کا تعلق محض فعل زنا یا مردو زن کے اختلاط سے ہے، جوکبھی عمداً اور کبھی غلطی سے ولادت کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔''
واضح ہوا کہ یہاں مسئلہ ڈی این اے کو ثبوت میں معتبر ماننے یا نہ ماننے کا نہیں، جب دو افراد کی گواہی سے اسلامی میں چوری کی سزا ثابت ہوجاتی ہے اور چار سے کم گواہوں سے زنا کی سزا صادر نہیں ہوسکتی تو اس کی وجہ نفس فعل کا ثبوت نہیں بلکہ شارع عزوجل کے پیش نظر دیگر ومتعدد حکم ومصالح ہیں۔ مزید برآں شریعتِ اسلامیہ نے حدود کا نظام قائم کیا، لیکن اسلام ہمیں شبہات کی بنا پر حدود کو ختم کردینے کی تلقین کرتا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)) [2]
''جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں سے حدود کو مؤخر کرو۔''
الغرض کسی بھی قسم کی اباحیت وجنسی بے راہ روی کی مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہئے، اگر یہ ظلم کسی سے جبراً یا اجتماعاً ہوا ہے، تو اس سے جرم کی نوعیت سنگین تر ہوجاتی ہے، اور ایسے مجرموں کو سزاے زنا کے ساتھ ساتھ بعض اوقات حرابہ ودہشت گردی کی سزا بھی دینی چاہئے، تاہم حد کی سزا مکمل احتیاط اورشرعی تقاضوں کی تکمیل کی متقاضی ہے، شرعی سزا کی یہ شدت عدل وانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی دی جاسکتی ہے۔
اس بنا پر اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ موقف درست ہے کہ اکیلے ڈی این اے کی بنا پر زنا کی شرعی سزا نہیں دی جاسکتی تاہم زنا کے لفظ کا اطلاق کئے بغیر، ایسے کسی ملزم کو مبادیات ِ زنا اور بوس وکنار کی تعزیری سزا حاکم وقت نافذ کرسکتا ہے۔ اور یہی / اسی قدر سیکولر حضرات کا منشا ہے، بایں وجہ میڈیا میں پھیلایا جانے والا سیکولر پروپیگنڈا معنویت ومقصدیت سے خالی ،اور قانونی، سماجی اور شرعی مسئلہ میں عوام الناس کو گمراہ کرنا اور اشتعال پھیلانا ہے۔
[1] http://ejabat.google.com/ejabat/thread?tid=651e47ce72012941&unsafe=1
[2] سنن ترمذی: 1489