کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 22
على الزنا و أن يقام الحد بسببها... إن القاعدة الشرعية هي درء الحدود بالشبهات، فيدرأ القصاص أيضًا بالشبهات، وهنا البصمة الوراثية يمكن أن تدخل في مجال الشبهات؛ لأنها يمكن أن يحدث الخطأ فيها ... وإنما يمكن أن تكون قرينة قوية تقوّي الأدلة الأخرٰى[1]
''ڈی این اے قرینہ تو بن سکتا ہے، لیکن وہ زنا کی دلیل و بَیّنہ قرار نہیں پائے گا کہ اکیلے اس کی بنا پر حد کو جاری کردیا جائے۔ کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ شبہات کی بنا پر حد کو ساقط کردیا جائے، قصاص بھی شبہ آجانے کی بنا پر ساقط ہوجاتا ہے۔ ڈی این اے میں غلطی کے امکان کی بنا پر، جیسا کہ ماہرین اس کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ شبہات میں داخل ہوجاتا ہے اور حدود وقصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں۔ بایں وجہ ڈی این اے پرحدود وجنایات میں انحصار نہ کیا جائے تاہم یہ ایسا اہم قرینہ ہے جو دیگر دلائل کو تقویت دے سکتا ہے۔''
دراصل اسلام نے زنا کے معاملہ کو بہت سنگین انداز میں لیاہے۔ اسلام میں زنا کی سزا، اس فعل بد کی ہی سزا نہیں بلکہ اس کو معاشرے میں کھلم کھلا انجام دینے کی بھی سزا ہے۔ اور جو شخص ایسا کرے تو اس کی سزا بھی سنگین ترین ہے کہ اس کو پتھر مار مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ چنانچہ شریعتِ اسلامیہ کے نظریۂ جرم وسزا میں مسئلہ وقوعہ کے ثبوت کا نہیں جو دیگر جرائم کے لئے محض دو گواہوں سے پورا ہوجاتاہے اور چار گواہوں کا یہ تقاضا اس جرم کے علاوہ کسی اور میں نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اس جرم کی اشاعت پر بھی کنٹرول رکھنا چاہتا ہے، ایسا جرم کرنے والے کو معافی کا موقع بھی دینا چاہتا ہے، اس پر الزام تراشی کی روک تھام کے لئے قذف کی سزا بھی متعارف کرائی جبکہ جو شخص کسی بھی اُصول واخلاق کا لحاظ نہ کرے تو پھر اس کو بدترین انجام سے دو چار کرکے نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ جہاں تک ڈی این اے کا معاملہ ہے تو اس سے وقوعہ ثابت ہوسکتا ہے،تاہم یہ مسئلہ اکیلے ثبوت کا نہیں، ایک عربی مفتی ابو عبودی لکھتے ہیں:
وليس هذا تشكيكًا في الحقيقه العلمية حول وجود الحمض النووي الـ دي إن إي. ولكن فلسفة التشريع الاسلامي تختلف أحيانًا كليا
[1] http://www.onislam.net/arabic/ask-the-scholar/8439/8312/47765-
2004-08-01%2017-37-04.html