کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 21
اور حنابلہ کا یہی موقف ہے کیونکہ عورت سے جبراور دیگر امکانات بھی ہوسکتے ہیں:
((لجواز أن يكون من وطء شبهة أو إكراه، والحد يدرأ بالشبهة)) [1]
''اس بنا پر کہ جبر یا شبہ کی بنا پر مواصلت ہوئی اور حد شرعی شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہے''
جبكہ مالکیہ اور حنابلہ (ایک قول میں )حمل کو زنا کے لئے کافی دلیل مانتے ہیں،صحیح بخاری میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی بنا پر: ((الرجم حق علىٰ من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو الحبل أو الاعتراف)) [2] جبكہ اس سلسلے میں قولِ فیصل علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کا ہے کہ حمل اُس وقت دلیل نہیں ہوگا جب عورت زنا کا انکار کرے اور حمل میں شبہ کا دعویٰ کرے، اور اُن کی دلیل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وہ فیصلہ ہے جس میں اُنہوں نے ایک عورت کے اعترافِ زنا پر پوچھا : کیا تمہیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا تھا، کیا تم غفلت میں سوئی پڑی تو نہ تھی؟[3] وغیرہ... سیدنا علی کے یہ سوالات سزاے رجم کو رفع کرنے کے لئے تھے۔
انہی وجوہات کی بنا پر رابطہ عالم اسلامی ، مکہ مکرمہ کے ذیلی شعبہ ' مجمع فقہی اسلامی' نے ڈی این اے سے استفادہ کے بارے میں بحث وتحقیق کے بعد درج ذیل موقف پیش کیا:
أوّلاً: لا مانع شرعًا من الاعتماد على البصمة الوراثية في التحقيق الجنائي، واعتبارها وسيلة إثبات في الجرائم التي ليس فيها حد شرعي ولا قصاص؛ لخبر ((ادْرَؤوا الحُدُودَ بالشُّبُهاتِ))....
''اوّل: شرعی طورجرائم کے ثبوت میں ڈی این اے پر اعتماد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اثباتِ جرائم میں اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ماسوائے حد شرعی اور قصاص کے کیونکہ فرمانِ نبوی ہے کہ شبہات کی بنا پر حدود کو مؤخر کردو۔ اور یہ موقف انصاف اور سماجی امن کو یقینی بناتا ہے، اور یہ وسیلہ مجرم کو سزا ملنے اور تہمت زدہ شخص کی بریت کی طرف لے جاتا ہے جو شریعت کے اہم ترین مقاصد میں سے ہیں۔''
مصری ماہر قانون اُستاذ ڈاکٹر رافت عثمان رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
والبصمة الجينية تصلح أن تكون قرينة لكن لا تصلح أن تكون دليلًا
[1] http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa
&Option=FatwaId&Id=28539... موسوعہ فقہیہ کویتیہ: 24/43
[2] صحیح بخاری: 6829، صحیح مسلم: 1691
[3] مصنف عبد الرزاق: 7/326، مسند احمد:1214،سنن نسائی،صحیح بخاری مختصراً، صحیح فقہ السنہ: 4/23