کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 20
''ابوبکرہ، نافع بن حارث اور شبل بن معبد نے سیدنا عمر کو مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی گواہی دی، تاہم زیاد نے صریح فعل زنا کی گواہی نہ دی اور کہا کہ میں نے ایک برا منظر دیکھا ہے، اس پر عمر مسرور ہوئے، اللہ کی تعریف بیان کی اور حد شرعی قائم نہ کی۔''
((حَدَّ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ الثَّلَاثَةَ الَّذِينَ شَهِدُوا عَلَى مُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ وَهُمْ أَبُو بَكْرَةَ وَشِبْلُ بْنُ مَعْبَدٍ وَنَافِعُ بْنُ الْأَزْرَقِ بِمَحْضَرٍ مِنْ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ فَصَارَ إجْمَاعًا)) [1]
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے باقی تین گواہوں پر تہمت کی حد جاری کی تھی، ان تین کے نام ابوبکرہ، شبل بن معبد اور نافع بن ازرق ہے۔ یہ تہمت کی حد صحابہ کرام کے مجمع میں لگائی گئی اور کسی نے اس پرانکار نہ کیا، سواس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع قرار پایا۔''
سزائے زنا میں قرائن کا عدم اعتبار: ایک موقع پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کیس میں مضبوط قرائن کی بنا پر زنا کا یقین ہوگیا، اور آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو زنا کے نتیجے میں ہونے والے حمل کی مماثلت کی بھی توجہ دلائی، لیکن اس موقع پر ایک تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:
(( لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا)) [2] ''اگر میں کسی کو بغیر 'بینہ'(گواہوں) کے، (محض قرائن کی بنا پر) رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا...''
شریعت کے نظام جرم وسزا میں ثبوت جرم کے اسالیب میں شہادتوں کے علاوہ قرائن کو بھی خاص وزن حاصل ہے۔ ظاہری مشابہت کی مستند سائنسی شکل فی زمانہ ڈی این اے کی شکل میں سامنے آئی ہے، لیکن اس کے مستند ہونے کے باوجود اس کی حیثیت اعلیٰ ترین قرینہ سے بڑھتی نہیں اور اسے بینہ یعنی گواہوں کے مساوی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نبی کریم نے یہی بات اوپر مذکور حدیث میں فرمائی ہے،کہ ایک وقوعہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجحان متعین ہوجانے کے باوجود بھی اللہ کے دیے نظام میں شرعی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں ڈی این اے سے بھی قوی قرینہ کو زنا کی سزا کے لئے کافی نہیں مانا گیا ، اور وہ ہے:شوہر کی غیرموجودگی میں عورت کا حاملہ ہوجانا، جبکہ عورت زنا سے منکریا حمل میں شبہ کی دعویدار ہو۔فقہ اسلامی میں اس مسئلہ کی تفصیل موجود ہے اور جمہور فقہا :حنفیہ، شافعیہ
[1] تبيين الحقائق شرح کنز الدقائق:9/20
[2] صحیح مسلم: 2751