کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 361
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر حسن مدنی
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بسلسلہ ڈی این اے
سیکولر پروپیگنڈے کا تجزیہ اور مسئلہ کی قانونی وشرعی حیثیت
صدر ایوب خاں کے دورِحکومت 1962ء میں قائم کی جانے والی 'اسلامی مشاورتی کونسل' کو ترقی دے کر 1973ء کے دستور میں 'اسلامی نظریاتی کونسل' کا نام دیا گیا اور کسی بھی قانون کی شرعی حیثیت جانچنے کے لئے اُس کو آئینی کردار سونپا گیا۔ستمبر 1977ء میں اس دستوری ادارے کے کردار کو مؤثر کرتے ہوئے،اس کے 20/ ارکان مقرر کئے گئے اور ضروری قرار دیا گیا کہ اس کے کم ازکم چار ارکان ایسے ہوں گےجنہوں نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں کم از کم 15 برس صرف کئے ہوں اور اس میں تمام مکاتب ومسالک کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔اس کے فاضل ارکان میں اعلیٰ عدلیہ کے دو سابق جج صاحبان اور ایک خاتون رکن کی موجودگی بھی ضروری قرار پائی۔
دستورِ پاکستان کے مستقل باب'اسلامی احکام 'کی دفعہ 227 کی شق اوّل میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ ''تمام موجود ہ قوانین کو کتاب وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔'' اور اسی دفعہ کی شق دوم یہ بتاتی ہے کہ کسی حکم کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کا تعین دستور کے اسی حصے یعنی اسلامی نظریاتی کونسل کے طے شدہ دائرہ عمل اورقانونی طریق کار کے ذریعے سے ہی ممکن ہوگا۔دفعہ نمبر 229 میں کونسل کی آئینی ذمہ داری متعین ہوئی کہ صدر ، گورنر یا کسی اسمبلی کا 40 فیصد حصہ اسلامی نظریاتی کونسل سے کسی قانون کے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کا مشورہ لے سکتا ہے۔ اس سے اگلی دفعہ میں کونسل کے فرائض میں بتایا گیا کہ وہ کسی بھی اسمبلی کو ایسے اقدامات کی سفارش کرسکتی ہے جن سے پاکستان میں انفرادی اور اجتماعی طورپر اسلام جاری وساری ہوسکے۔ اُن تدابیر کی نشاندہی کرسکتی ہے جن سے مروجہ قوانین اسلام کے تقاضوں کے مطابق ہوجائیں۔ یا خود کونسل اسلامی احکام کی تدوین کا کردار بھی انجام دے سکتی ہے تاکہ اُنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جائے۔کونسل اس امر کی پابند ہے کہ 15 روز کے اندر کسی