کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 19
اس کا جائزہ لیاجاچکاہے۔ جہاں تک شریعتِ اسلامیہ کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں فعل زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کا صریح مطالبہ تین مقامات پر موجود ہے: ﴿وَالّـٰتى يَأتينَ الفـٰحِشَةَ مِن نِسائِكُم فَاستَشهِدوا عَلَيهِنَّ أَر‌بَعَةً مِنكُم...15﴾[1] ''وہ عورتیں جو بے حیائی کا راستہ اختیار کریں تو ان پر چار گواہ پیش کرو...'' ﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ ثُمَّ لَم يَأتوا بِأَر‌بَعَةِ شُهَداءَ فَاجلِدوهُم ثَمـٰنينَ...4﴾[2] ''وه لوگ جو پاک دامن عورتوں پر بہتان تراشی کریں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں قذف کی سزا کے طورپر 80 کوڑے مارو اور کبھی اُن کی گواہی قبول مت کرو۔'' ﴿لَولا جاءو عَلَيهِ بِأَر‌بَعَةِ شُهَداءَ ۚ فَإِذ لَم يَأتوا بِالشُّهَداءِ فَأُولـٰئِكَ عِندَ اللَّهِ هُمُ الكـٰذِبونَ 13﴾[3] ''اُنہوں نے اس (الزام) پر چارگواہ کیوں پیش نہیں کئے، اگر وہ گواہ نہیں لائے تو وہ اللہ کےنزدیک جھوٹے شمار ہوں گے۔'' توجہ طلب امر یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں چار گواہیوں کا دوٹوک لفظ تین مقامات پر آیا ہے اور ان تینوں مقامات پر خواتین کے دفاع کے سیاق میں قرآنِ کریم نے یہ مطالبہ پیش کیا ہے۔ نامعلوم پھر کس طرح جاوید غامدی، قرآن کریم کے نام پر چار گواہیوں کے مطالبے سے انحراف کرکے زنا کے ثبوت کے لئے اکیلے ڈی این اے کو کافی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا قرآنِ کریم کو میزان ماننے اور اسے کسوٹی تسلیم کا دعوٰی کدھر گیا...؟ احادیثِ نبویہ میں بھی ہلال رضی اللہ عنہ بن اُمیّہ اور سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کے واقعات[4] وغیرہ میں چار گواہوں کا مطالبہ صریح الفاظِ نبوی میں موجود ہے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سيدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ كا مشہور واقعہ بھی موجود ہے، جس میں مغیرہ پر زنا کی تہمت میں چوتھے شخص کی گواہی پوری نہ ہوئی تھی ... ((أن أبا بكرة و نافع بن الحارث و شبل بن معبد شهدوا على المغيرة بن شعبة بالزنى عند عمر بن الخطاب و لما لم يصرح زياد بذلك بل قال: رأيت أمرًا قبيحًا فرح عمر وحمد اللّٰه و لم يقم الحدّ عليه)) [5]
[1] سورة النساء:15 [2] سورة النور:4 [3] سورة النور:13 [4] سنن نسائی: رقم 3469 اور صحیح مسلم 1498 [5] مصنف ابن ابی شیبہ: 5/544، ارواء الغلیل از البانی: 2361، صحیح فقہ السنۃ: 4/34، صحیح