کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 18
چھٹکارا حاصل کرکے ، اللہ کی شریعت کو نافذ کیا جائے گا۔ حدود قوانین کی معاصر انگریزی قانون پر برتری کی بنا پر ماضی میں کئی فیصلوں میں عدالتوں نے حدود قوانین پر عمل درآمد کرایا [1]تھا، جس کو نام نہاد تحفظ نسواں بل 2006ء نے ختم کرکے، دونوں قوانین کو متوازی طور پر جاری کردیا بلکہ عملاً شرعی سزا کا نفاذانتہائی مشکل کرنے کے لئے بھی قانونی ترامیم منظور کی گئیں، جس کے بعد عملاً انگریزی قانون جاری وساری ہوگیا۔جب دسمبر 2010ء میں وفاقی شرعی عدالت نے 'تحفظِ نسواں بل 2006ء 'کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ [نمبرا ۔آئی2010]دیا، تو اس وقت عدالت نے نکتہ نمبر 117 کے تحت یہ بھی مطالبہ کیا کہ ''قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی سزا قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا اُن سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کئے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت میں ہی کی جائے ۔ عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے جو اس سے قبل مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد 10 شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص /انسانی سمگلنگ۔'' گویا عدالت کا مطالبہ تھا کہ ان جرائم پر معاصر انگریزی قانون کی بجائے شرعی قانون کو لاگو کیا جائے اور ان کے کیسز بھی شرعی عدالت میں چلائے جائیں۔وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ آجانے کے بعدچونکہ ماتحت عدالتیں اس کی پابند ہوتی ہیں،اس بنا پر یہ طے پا گیا کہ ایسے کیسز کی اپیل وغیرہ کو وفاقی شرعی عدالت میں لایا جائے۔ اَب شرعی عدالت کے 2010ء کے اس فیصلے کی تائید ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش سے ہوئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش اور شریعت ِ اسلامیہ 7. اوپر آپ سیکولر لابی کے پروپیگنڈے اور اس کا تجزیہ پڑھ آئے ہیں، قانونی حیثیت سے بھی
[1] مثلاً دیکھیں 1986ء PSC کا فیصلہ نمبر 1228 اور پاکستان کریمنل لاء جرنل، فیصلہ نمبر1030