کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 17
جرمانہ وغیرہ... اور یہی سیکولر حضرات کا منشا ، خواہش اور ماضی کا مطالبہ بھی رہا ہے، تو پھر اعتراض کس بات پر کررہے ہیں، تنقید کس نکتے پر ہے...؟ یہی بات نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش کے حوالے سے بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہی ہے: ''کم از کم اسے حد (حدود آرڈیننس) میں نہیں تو تعزیری جرم میں تو آنا ہی چاہیے۔''[1] امر واقعہ میں قانون بھی یہی ہے کہ جیسا کہ قانونِ شہادت 1984ء کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شِق'2 بی' میں صراحت کی گئی ہے کہ ''حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ '' مذکورہ بالاشق میں 'حد زنا' کا لفظ قابل توجہ ہے، یعنی زنا کی شرعی سزا سے قطع نظر،شرعی ثبوت پورے نہ ہونے کی بنا پر زنا کی سیکولر قانون والی سزا دی جاسکتی ہے۔... پھر عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔عدالت ِعالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے : ''قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔''[2] ٭ ایک توجیہ تو وہ ہے جو اوپر درج کی گئی کہ جرم کی نوعیت کی بنا پر سزا کی نوعیت میں تبدیلی کی جائے یعنی شرعی تقاضوں کی تکمیل پر عین شرعی سزا اور کمتر ثبوتوں کی بنا پر کمتر/تعزیری سزا، یہ شرعی اور انگریزی قانون میں مفاہمت پیدا کرنے کی ایک تاویل ہے...اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے نظامِ تعزیرات میں زنا کاری کے جرائم پر دو طرح کے قوانین موجود ہیں: انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اوراللہ کی نازل کردہ شریعت۔ ماضی میں حدود آرڈیننس کی بنا پر شریعتِ اسلامیہ کو انسانی وضعی قوانین پربرتری حاصل ہوگئی تھی جو عین اسلامی تقاضا تھا، کیونکہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں انگریزی قوانین پر عمل درآمدکسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور پاکستان کا خطہ اسی مقصد کےلئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں انگریزی نظام وقانون سے
[1] بغاوت ملٹی میڈیا: 31/مئی 2013ء [2] پاکستان کریمنل لاء جرنل1992ء: صفحہ1520