کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 14
٭ علاوہ ازیں اگر محض ڈی این اے رپورٹ کو ہی کافی سمجھ لیا جائے تو پاکستان جیسے ملک میں ڈی این اے کی جعلی رپورٹ حاصل کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے، ماضی میں ہمارے ہاں کتنے ہی معاملات میں جعلی رپورٹوں کا مسئلہ پیش آتا رہا ہے اور جعل سازی اور کرپشن میں پاکستان دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ ٹیسٹوں کی ایسی ہی غیریقینی صورتحال پرایک ماہر کی تنقید یوں ہے:
ڈی این اے ٹیسٹ میں ایک تو وہ فرد ہوتا ہے جو نمونہ حاصل کرتاہے، ایک وہ فنی ماہر جو اس کو تحلیل کرتا ہے، ایک وہ ڈاکٹر جو کیفیت ونوعیت کا تجزیہ کرکے نتیجہ تحریر کرتا ہے، پھر وہ شخص جو اس رپورٹ کو کمپوز کرتا ہے اور آخر میں وہ شخص جو اس رپورٹ کو وصول کرتا ہے۔ کم ازکم پانچ افراد کے ہاتھوں سے گزر کر ڈی این اے کی رپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ ان میں کسی بھی شخص کے لئے عمداً ،سہواً یا کوتاہی کی بنا پر غلطی کرنے کا امکان موجو دہے۔اب ایسے ایک معاملے پر کس طرح ایک انسان یا پورے کنبے کی عزت وتشخص کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہے۔
5. اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی حیثیت : ہمارے وطن کا نام'اسلامی جمہوریہ پاکستان' ہے، جمہوریت کے طورپر یہاں پارلیمانی نظام کام کررہا ہے اور مغربی جمہوریت کو اسلام سے مشرف کرنے کی ایک کوشش کے طورپر اس پارلیمنٹ کو خلافِ اسلام قانون سازی سے منع کردیا گیا ہے، ہمارا کل اسلام اسی قدر ہے۔ کسی قانون کو اسلام مطابق یا خلافِ اسلام قرار دینے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا آئینی ادارہ موجود ہے۔ آئین میں یہ قرار بھی دیا جاچکاہے کہ پاکستان میں اسلام کی عمل داری کا راستہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ورہنمائی اور تدوین کے علاوہ اور کوئی نہیں، جیساکہ 227 کی شق دوم میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اندریں حالات جمہوریہ پاکستان کے سابقے'اسلامی' اور قیام پاکستان کا یہ آئینی تقاضا ہے کہ اس ادارے کو تقویت دی جائے۔ مغرب زدہ کالم نگار اس آئینی ادارے کی سفارشات کا یوں مضحکہ اُڑا رہے ہیں جیسے یہ کسی علم ودانش سے پیدل،اسلام کی مالا جپنے والےدقیانوسیوں کا جذباتی مطالبہ ہو جبکہ کونسل کی سفارشات کی یہ اہمیت ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو غیر اسلامی قرار دیں تو پارلیمنٹ اس پر نظر ثانی کی پابند ہے۔روزنامہ 'ڈان' کے 'دقیانوسی سوچ'والے اداریے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت پر حرف گیری کی گئی اور اس کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، سیکولر دانش وروں کو ایسی جسارتوں سے باز