کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 12
پاکستان میں رائج الوقت سیکولر قانون دونوں جرائم سے علیحدہ علیحدہ رویہ رکھتا ہے۔ کسی فعل زنا کا جبر واکراہ یا رضا مندی سے وقوع پانا ، جیتے جاگتے انسانوں یا بعض اوقات دیگر قرائن وحالات کی بنا پر ہی واضح ہوتا ہے۔ اس پنا پر اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈی این اے ایک ضمنی اور تائیدی شہادت ہی ہے اور بنیادی گواہی کے نظام سے مفر ممکن نہیں جس کی بنا پر جرم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا۔ ٭ موصوف کالم نگار نے بھی سائنس سے والہانہ عقیدت میں علماے کرام کو آڑے ہاتھوں تو خوب لیا اور ان پر فقرے بھی کسے لیکن ایک ہفتہ کے بعد ہی اُنہیں اپنے موقف میں کمزوری کا احساس ہو گیا۔ سو کھلا اعتراف کرنے کی بجائے ، پھر لگے بہانہ بنانے، چنانچہ 3 جون کے بعد 9جون 2013ء کو اپنے بدنام کالم 'فحاشی برائے فروخت' میں رقم طراز ہیں : ''گینگ ریپ کا شکار ہونے والی عورت جب ملزم کی نشاندہی کرتی ہے تو وہ ملزم کہتا ہے کہ عورت جھوٹ بولتی ہے، میں تو اُس کے قریب بھی نہیں گیا، وہاں ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت کیا جاسکتاہے کہ ملزم سچا ہے یا جھوٹا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس کے بعد اس بات کا تعین کرنے میں کوئی دقت نہیں کہ زنا مرضی کے ساتھ تھا یا جبر کے ساتھ۔'' یہاں بھی کالم نگار گینگ ریپ (اجتماعی عصمت دری) کے لفظ سے باہر نہیں نکل پائے۔ جبکہ کونسل کی سفارش میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں اور دونوں کے ثبوت کے الگ تقاضے ہیں۔مزید برآں اُنہوں نے نادانستگی میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ شہادتوں اور قرائن و وحالات کی بجائے محض ایک عورت کے کہنے پر، کسی شخص کو زنا بالجبر کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی بھی عورت پہلے اپنی مرضی سے گناہ کا ارتکاب کرکے، مرد کو اُنگلیوں پر نچاسکتی ہے کیونکہ محض اس عورت کے کہہ دینے سے اس شخص کو جبر کا مُرتکب سمجھا جائے۔ کیا پیرزادہ صاحب یہ موقف رکھتے ہیں کہ عورتوں میں اس گناہ کی کوئی خواہش سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ، حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کے مشہور قرآنی اور مرثد رضی اللہ عنہ وعناق کے احادیث میں موجود قصوں سے لے کر معاشرے میں بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں عورت خود مجرم ہوتی ہے۔ یاسر پیرزادہ حقوق ِنسواں کے ایسے علم بردار ہیں کہ وہ عورت کی اکیلی گواہی اور ڈی این اے پر کسی بھی مرد کو لٹکا دینے کی تلقین کررہے ہیں۔ یہ علم ودانش اور زن پرستی آپ کو ہی مبارک ہو۔