کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 11
کرلینے سے معاشرے میں عورت کو عزت ووقار نصیب ہوجائے گی اور اس کی آبروقائم ہوجائے گی، اگر آپ کا یہی خیال ہے تو جائیے امریکہ ویورپ میں ریپ کے ہوش ربا اعداد وشمار پڑھ لیجئے ، وہاں ڈی این اے کی قانونی حیثیت مان لینے سے عورت کی ذلّت میں ذرا بھر کمی نہیں ہوئی، وہاں کی عورت مسلم معاشروں سے کہیں زیادہ مردوں کی ہوس کا شکار ہے۔ بلکہ یہ ڈی این اے تو منطقی ضرورت اور نتیجہ ہے اس حرام کاری کے تعین کا، جس سےمغرب کے سائنسی اور بزعم خود مہذب معاشرے کا ہردوسرا فرد استفادہ کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کا مروّجہ قانون اور ڈی این اے کے مسائل 4. دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں عام مروّجہ /انگریزی قانون کی رو سے بھی میڈیکل اور سائنسی شہادتیں، مثلاً فنگر پرنٹس، پوسٹ مارٹم، ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگز بنیادی شہادت کا درجہ نہیں رکھتیں اور اُن سے معاونت یعنی ضمنی شہادت کا ہی کام لیا جاتا ہے،اس میں علما کو دوش دینے کا کوئی تک نہیں ہے بلکہ اس 'جرم'میں پاکستان کے قوانین اوراس کے ماہر متفق ہیں۔ مثلاً قتل کے کسی کیس میں اگر براہِ راست گواہی سے صورتحال واضح نہ ہورہی ہو تواس صورت میں فنگر پرنٹس یا پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میڈیکل شہادتوں سے کسی مخصوص فعل کا وقوع تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کی حتمی نوعیت ، جیتے جاگتے انسانوں کی گواہی کے بغیر ممکن نہیں، یہی صورتحال ڈی این اے کے بارے میں بھی ہے۔ ڈی این اے کو اگر نظریاتی کونسل نے ضمنی شہادت قرار دیا ہے تو گویا اس طرح اُنہوں نے اس کے شاہد ہونے کا انکار نہیں کیا، تاہم وقوعہ کے ثبوت میں اسے تائیدا ًقبول کرنے کی بات کی ہے۔ نامعلوم کیوں ناقدین نے اس بنا پر کونسل اور اس کے ارکان پر گرجنے برسنے اور اُنہیں سائنس سے نابلد ہونے کا طعنہ دینے میں جلدی کی۔ ڈی این اے کے بارے میں یہ بات اُنہیں پیش نظر رکھنا چاہئے تھی کہ اس سے فعل زنا کا ثبوت تو ہوسکتا ہے، تاہم اس سائنسی ٹیسٹ سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ یہ فعل رضا مندی سے ہوا یا جبر واکراہ اور ظلم کی بنا پر ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں جرائم کی نوعیت اور پاکستان میں ان کی طے شدہ سزا میں بے حد فرق ہے، زنا بالرضا کی سزا محض 5 سال قید جبکہ زنا بالجبر کی سزا 25 سال یاسزاے موت مقرر کی گئی ہے۔زنا کی سزاوں کا یہ تعین اور رضا و عدم رضا کی یہ تفریق شریعتِ مطہرہ نے نہیں کی، تاہم دونوں جرائم کی نوعیت ضرور مختلف ہے اور