کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 10
3. غلطی پر شاباش :سیکولر دانش بازوں کا یہ ٹولہ او رجتھہ، کسی ایسی جرات پر ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے کی بھی خاص روایت رکھتا ہے۔3 جون کے اس مغالطہ آرائی پر مبنی کالم کو معروف لادین کالم نگار حسن نثار نے بطورِ خاص توصیف کی سند عطا کی ہے، یہ وہی حسن نثار ہیں جن کو یاسر پیرزادہ نے اپنے فحاشی کی تائید میں لکھے جانے والے ایک اور واہیات کالم میں 'مرشد ِاعلیٰ' کے لقب سے یاد کرکے اپنا فکری شجرۂ نسب اور نظری حدود اربعہ کھول دیا ہے۔حسن نثار لکھتا ہے:
''آخر پر شاباش یاسر پیرزادہ کے لئے جس نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اک تازہ ترین 'مقدس' فیصلہ پر کالم لکھ کر حق قلم ادا کردیا۔3 جون کو شائع ہونے والا یاسر کایہ کالم پھر پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھائیں کہ یہ عظیم نیکی ہوگی۔ ویل ڈن یاسر پیرزادہ، آخر بیٹا بلکہ بیٹا بھی کیا، بھتیجا کس کا ہے؟''[1]
تعجب ہے کہ مذہب سے بیزار لوگ بھی ، دوسروں کو تلقین کرنے کے لئے نیکی کا استعارہ استعمال کرتے ہیں،یہ نیکی اوربدی کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس کا علم تو روزِقیامت ہوگا جب ایک ایک لفظ کاحساب دینا پڑے گا، اور جو کئی دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے، ان کو سب کا وبال بھی اُٹھانا ہوگا۔ یاسر پیرزادہ اس تعریف پر پھولنے نہ سماتے مزید لکھتاہے:
''بائی دی وے، جن احباب نے ڈی این اے ٹیسٹ کے خلاف دلائل دیے ہیں، اُنہیں چاہئے کہ یہ دلائل اس نابالغ بچی کے لواحقین کو سنائیں جسے چار مردوں نے بھنبھوڑ کر قتل کرڈالا اور اب باعزت بری ہوئے پھرتے ہیں۔''[2]
٭ جس طرح پیرزادہ نے زنابالجبر کو خود سے گینگ ریپ بنا ڈالا، دوماہ قبل ہونے والے واقعہ کو 29مئی کی سفارش کا نتیجہ دکھا ڈالا، اب لودھراں کی اس شادی شدہ عورت کو نابالغ بچی قرار دے دیا۔ ارے بھائی! غلط بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مزید برآں کیا آپ کا خیال ہے کہ اس سارے جرم کی وجہ ڈی این اے کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا ہی ہے اور بے چارے علما یا اسلامی نظریاتی کونسل ہی اس جرم کی سزاوار ہے، یا اس میں ہمارے سیکولر اور انگریزی عدالتی نظام کا بھی کوئی قصور ہے؟یا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ڈی این اے کی قانونی حیثیت تسلیم
[1] کالم 'چند ادھوری شاباشیں' از حسن نثار: روزنامہ جنگ لاہور، 4/جون 2013ء
[2] کالم 'فحاشی برائے فروخت ' از یاسر پیرزادہ: روزنامہ جنگ لاہور، 9/جون2013ء