کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 99
اور بینک اپنے منافع کو KIBOR یا LIBOR ...جو کہ شرح سود کے لئے Bench Mark ہے... کے ذریعہ متعین کرتا ہے۔شرح سود کو معیار مقرر کرنا مکمل معاملہ کو ہی مشکوک بناتا ہے۔ 23. اجارہ میں بینک کا چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا بھی جائز نہیں ، کیونکہ مروّجہ اجارہ کا معاہدہ درحقیقت بیع و شرا کا معاہدہ ہے جس میں بینک بائع ہے اور مستاجر(کرایہ دار) دراصل مشتری (خریدار) ہے ، اور چیز کی ملکیت مشتری کے پاس ہوتی ہے، نہ کہ بائع کے پاس۔ 24.اجارہ کی مدت کے اختتام پر ہدیہ کا وعدہ بھی درست نہیں ، کیونکہ یہ عام ہدیہ نہیں بلکہ ہدیۃ الثواب ہے کیونکہ یہ ان اقساط کی ادائیگی کے عوض میں ہدیہ ہے جو گاہک نے بینک کو ادا کیں، اور ہدیۃ الثواب کا حکم بیع کاہی ہوتا ہے ، یعنی اجارہ کے معاہدہ میں ہدیہ کا وعدہ دراصل ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو شرعی لحاظ سے جائز نہیں۔ 25. اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پر صدقہ بھی دراصل سود کے ہی نام کی تبدیلی ہے۔ 3. صحیح اسلامی بینکاری کے لئے بنیادی تجاویز 1. موجودہ اسلامی بینک محض مالیاتی ادارہ ہےتجارتی نہیں ،لہٰذااسلامی بینک کو ایک حقیقی تجارتی ادارہ بنایا جائے ۔ 2. شریعت میں محض تمویل پر بنا کسی مخاطرت (رسک ) کے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ شرعی اُصول کے مطابق معاملات میں مقصد اور نیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کو ۔ 3. اسلامی بینک کو مرابحہ اور اجارہ کو چھوڑ کر حقیقی مضاربہ و مشارکہ کی جانب آنا چاہئے، اور اپنا رسک قبول کرنا چاہئے ۔ 4. مضاربہ کے لئے جمع ہونے والے سرمایہ کو صرف تجارت کے لئے استعمال کیا جائے، نہ کہ محض تمویل میں۔ 5. اسلامی بینک کو حقیقی شرعی مضارب کا کردار اپناتے ہوئے ربّ المال کے اختیارات کو حیلے