کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 96
8. مضاربہ کی ابتدا میں منافع کی تقسیم کے لئے فیصدی تناسب طے نہ کرنا۔ بلکہ مضاربہ شروع ہونے کے ایک مہینہ یا کچھ عرصہ بعد بینک منافع کے فیصدی تناسب کااعلان کرتا ہے۔جبکہ شرعی مضاربہ کے لئے ضروری ہے کہ مضاربہ کی ابتدا سے ہی منافع کا فیصدی تناسب طے کر لیا جائے۔
9. رب المال کے اختیارات کو سلب کرنا : بینک کے فارم پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ بینک جو بھی منافع طے کرے گا ،صارف کے لئے اس کو قبول کرنا ضروری ہے ، اور وہ اس میں کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔
جب کہ شریعت نے ربّ المال (ڈیپازٹر) کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ مضارب (بینک) سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس کا مال کہاں صرف ہورہا ہے ، اسی طرح منافع کی تقسیم کے فیصلہ میں بھی ربّ المال کا شامل ہونا ضروری ہے ۔[1]
2) مُشارکہ
اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی بنیاد پر کوئی اکاونٹ نہیں کھولا جاتا ، بلکہ محض سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے ۔ یہ غیر شرعی مشارکہ ہے کیونکہ :
10. Depositor جو کہ مشارکہ میں فریق ہے، اسے سرے سے بینک کی شراکت کی مالیت کا علم ہی نہیں ہوتا۔جبکہ اسلامی مشارکہ میں لازم ہوتا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کے سرمائے کا علم ہونا چاہئے ۔
11. مروّجہ اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی صورت میں ظلم کو رواج دیا جاتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مضاربہ کی طرح مشارکہ میں بھی ڈیپازیٹر کے انفرادی سرمائے کو کم ویٹ دیا جاتا ہے اور بینک اپنے سرمایہ کا ویٹ زیادہ رکھتا ہے ۔
[1] بنکوں میں جاری مضاربہ میں پائی جانے والی شرعی خامیوں کی تفصیل محدث کے اسی شمارہ میں شائع شدہ مستقل مضمون میں ملاحظہ فرمائیں جو اسی سیمی نار میں پیش کیا گیا۔