کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 95
کریں۔
2. مزید برآں یہ بھی یاد رہے کہ ان سفارشات میں مروجہ اسلامی بینکوں کے صرف ان معاملات کا احاطہ اور تجزیہ کیا گیا ہے جو اساسی یا اکثریتی ہیں ، یعنی بینک زیادہ تر وہی معاملات کرتے ہیں۔ اقلیتی یا ثانوی نوعیت کے معاملات کو طوالت کے خدشہ کے پیش نظر ترک کیا گیاہے۔
1) مضاربہ
مروّجہ اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ، شرعی مضاربہ کے اُصولوں پر پورا نہیں اترتاجس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:
3. ڈیپازیٹر جو کہ ربّ المال ہے، اسے اس کے سرمایہ سے جو کاروبار کیا جارہا ہے ،اعتماد میں نہ لیا جانا ۔
4. بینک کے منافع میں یک طرفہ بڑھوتی اور حقوق سے یک طرفہ استفادہ۔یعنی مجموعی منافع میں اضافہ ہونے کے باوجود ربّ المال کے منافع میں اسی تناسب سے اضافہ نہ ہونا۔ مضارب ہونے کی حیثیت سے بنک کا اپنے حقوق سے بھرپور استفادہ کرنا اور ڈپازیٹر کے ربّ المال ہونے کی حیثیت سے اس کے حقوق سے یکسر انکار کرنا۔
5. مضاربہ کے مال کو تجارت کے بجائے صرف تمویل(Financing) میں استعمال کیا جانا۔ جبکہ شرعاً مضاربہ کے مال کو صرف تجارت میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کسی اور مقصد میں اس کا استعمال جائزنہیں۔
6. ڈیپازیٹر کے سرمائے کو کم اہمیت (Weightage) دینا۔بینک اپنے سرمایہ کو زیادہ وزن دیتا ہے جبکہ اس کا سرمایہ ڈیپازٹر کے مجموعی سرمایہ سے بہت کم ہوتا ہے، اور ڈیپازٹر کے سرمایہ کو کم وزن دیتا ہے۔
7. یاد رہے کہ منافع میں ویٹ (Weightage) دینے کے لئے ڈیپازٹر کے سرمایہ کی کمی بیشی اور مدت کو معیار مقرر کرنا بھی اسے سودی معاملہ کے مشابہ کردیتا ہے۔