کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 94
2۔عملی تطبیق: یعنی علما نے بحث و تمحیص و اجتہادات کے ذریعے اسلامی بینکاری کے لئے جو اصولی ونظریاتی نظام تجویز کیا ہے تو عملی تطبیق کے حوالے سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے کہ اسلامی بینکوں میں عملی طور پر جو معاہدات وقوع پذیر ہوتے ہیں، وہ اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام سے حقیقی مطابقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ان تمام معاہدات کی ہر شق اور ہر شرط کی نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے ؛ کیونکہ بسا اوقات ایک شرط پورے معاہدے کو حرام صورت میں بدل دیتی ہے ، اور بسا اوقات معاہدے میں عملی لحاظ سے معمولی سی تبدیلی پورے معاملہ کو سودی معاملہ کی شکل دے دیتی ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مالی معاہدہ کا اصولی اور نظری ڈھانچہ اور خاکہ بالکل درست شرعی نظام پر مبنی ہوتا ہے لیکن عملاً بنکوں میں اس شرعی طریقہ کار کو صحیح طریقہ اور حقیقی روح کے مطابق زیر عمل لایا نہیں جارہا ہوتا۔ الغرض اسلامی بینکوں میں موجود شرعی خامیوں کی نشاندہی سے یہ مراد نہیں کہ اسلام میں بینکوں کی سرے سے گنجائش نہیں، یا یہ کہ ہم سودی بینکوں کو رواج دینے اور تقویت دینے کے قائل اور داعی ہیں۔مقصد صرف اصلاح ہے کہ اچھے نعرے کے ساتھ جو قدم اُٹھایا گیا ،اس کا خیر وحق پر ہونا یقینی بنایا جائے اور اس میں جو خامیاں ہیں اُنہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے، خصوصاً ایسی خامیاں جو اسلامی بینکوں اور سودی بینکوں کے درمیانی فرق کو صرف نام کی حد تک ہی برقرار رکھیں اور اسلامی نظام معیشت کی سنہری خصوصیات و فوائد معاشرے تک منتقل نہ ہوسکیں ، ان کی اصلاح کی طرف فوری اور مؤثر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 2۔مروّجہ اسلامی بینکنگ میں موجود شرعی قباحتیں 1. شرعی قباحتوں کے بیان میں واضح رہنا چاہئے کہ ان سفارشات میں علماے کرام اور بینکار حضرات ہی کو مخاطب کیا گیا ہے جو کہ ان معاہدات کی تفاصیل سے باخبر ہیں، اسی لئے ان سفارشات کو احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب افراد 'المدینہ اسلامک سنٹر' اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب کی طرف رجوع