کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 93
1۔تمہید سودی نظام پر مبنی نظام بینکاری یقیناً کسی بھی معاشرے اور اس کی اقتصاد و تجارت کے لئے زہر ہلاہل جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلا اعلانِ جنگ ہے ، جو کسی بھی معاشرہ خصوصاً مسلم معاشرہ کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ۔ ایک مسلمان چاہے عالم ہو یا تاجر یا کوئی اور حیثیت رکھتا ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلؤوں پر عموماً اور اپنی آمدن وتجارت پر خصوصاً اسلامی مالیاتی اُصول ومبادی کے عملی نفاذ وتطبیق کے لئے سرگرداں رہے۔سودی بینکاری کے بالمقابل اسلامی بینکاری کا رواج و تنفیذ بھی یقیناً اسی سوچ کی عکاس اور لائق تحسین ہے ۔ سودی بینکاری کی انتہائی پختہ و مضبوط عمارت اورنظام سے ہٹ کر خالصتاً اسلامی بنیادوں پر قائم بینکاری نظام کا قیام یقیناً انتہائی دشوار گزار ہے جس کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام علما اور کاروباری حضرات لائق تعریف ہیں۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ بینکاری نظام کا تعلق ایسے جدید معاشی مسائل سے ہے جس میں اجتہاد کا عنصر زیادہ ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ بینکاری انتہائی دقیق اور حساس مسائل پر محیط ایک نظام ہے، اور چونکہ اسلامی بینکاری، سودی نظام بینکاری کو ہی اسلامی مالیاتی نظام کے سانچہ میں ڈھالنے کی کاوش ہے تو اسے شریعتِ اسلامیہ کے مطابق قرار دینے سے پہلے دو پہلؤوں سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے: 1۔فقہی اجتہادات : اسلام کے فقہی وشرعی ذخیرے میں جن اُصولی بیوع پر اسلامی بینکاری کے معاملات کو قیاس کیا گیا ہے، کیا ان اُصولی بیوع اور اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام میں مطابقت بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا ان اُصولی بیوع کی شرعی قیود و شرائط کا اسلامی بینکاری میں خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اسلامی بینک کےبچت کھاتہ (Saving Account) کو شرعی مضاربہ پر قیاس کیا جاتا ہے تو فقہی حوالہ سے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کیا بچت کھاتہ کا نظام اور اس کی تمام قیود و شرائط شرعی مضاربہ کے مطابق ہیں یا نہیں؟