کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 90
الْمَالِ"[1]
''اگر کوئی اس طرح مضاربہ کر ے کہ وہ دراہم سے کھجوروں کے درخت خریدے گا تاکہ اُن کی آمدن حاصل کر ے اور نفع دونوں کے درمیان تقسیم ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں جو نفع حاصل ہو ا ہے، وہ مضارب کے تصرف کا نتیجہ نہیں ہے وہ تو خود مال کا کمال ہے۔''
جب کہ اسلامی بینک مضاربہ کی بنیاد پر لیا گیا سرمایہ 'اجارہ' وغیرہ میں بھی لگاتے ہیں جس سے اسلامی بنکوں میں رائج مضاربہ مشکوک قرار پاتا ہے ۔ چونکہ اس نقطہ نظر کے حق میں دلائل نہیں ہیں، اس لیے اسلامی بینکاری کے حامی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بنیادی طور پر مضاربہ تجارت میں ہی ہو تاہے۔ زرعی اور صنعتی منصوبوں میں اس کا استعمال اس کے مفہوم میں وسعت پیدا کر کے کیا جانے لگا ہے ۔ چنانچہ المعاییرالشرعیةمیں ہے:
"والمضاربة من الصیغ التي تستخدم غالبًا في التجارة ثم توسّعت استخداماتها حتی شملت مجالات الاستثمار التجاریة والزراعیة والصناعیة والخدمیة وغیرها"[2]
''مضاربہ ان طریقوں میں سے ہے جو زیادہ تر تجارت میں استعمال کیا جاتاہے پھر اس کے استعمال میں وسعت پیدا ہوگئی یہاں تک کہ تجارتی،زرعی اور صنعتی سرمایہ کاری وغیرہ کو بھی شامل ہو گیا۔''
مضاربہ کے مفہوم میں یہ وسعت کس نے پیدا کی، کب کی اور کس بنیاد پر کی؟ اسلامی بینکوں کے مفتیان کرام اس بارے میں بالکل خاموش ہیں ۔
چھٹا اُصول
مضاربہ میں نفع کا صحیح اندازہ تب ہی ہوسکتا ہے جب مضاربہ کاروبار کے غیر نقد اثاثوں کو بیچ کر نقد میں تبدیل کر لیاجائے۔اسی لئے ماہرین شریعت یہ کہتے ہیں کہ مضاربہ میں
[1] البهجة الوردية ،باب القراض : ۱۱/۴۸۰
[2] ایضًا:ص۲۳۲