کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 89
"لو قارضه علىٰ أن یشتري الحنطة فیطبخها ویختبرها والطعام لیطبخه ویبیع والربح بینهما فهو فاسد أن الطبخ والخبر ونحوهما أعمال مضبوطة یمکن الاستئجار علیها وما یمکن الاستئجار علیه فلسیغني عن الفرائض إنما القراض لما لا یجوز الاستئجار علیه وهو التجارة التي لا ینضبط قدرها"[1]
یعنی مضاربہ کے مال سے صرف تجارت کی جاسکتی ہے دوسرے نفع بخش کاموں میں لگانے کی اجازت نہیں ہے،کیونکہ مضاربہ وہاں ہوتاہے جہاں اجارہ نہ ہو سکے اور وہ تجارت ہے۔ جہاں اجارہ ہو سکے وہاں مضاربہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
فقہاے حنفیہ کے نزدیک بھی مضاربہ کا مال صرف تجارت اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں میں ہی لگایا جاسکتا ہے ،چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب 'ہدایہ' میں ہے:
"فینتظم العقد صنوف التجارة وما هو من صنیع التجار"[2]
''مضاربہ کا عقد تجارتی سرگرمیوں کو ہی شامل ہے جبکہ یہ کام ( ایک خاص مسئلہ کی طرف اشارہ)تاجروں کا کا م نہیں ہے۔''
دوسری جگہ ایک مسئلہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
''یہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،کے نزدیک اس لیے جائز نہیں کہ یہ تجارت میں شامل نہیں ہے اور عقدِ مضاربہ کا مقصد صرف تجارت میں کسی کو وکیل بنا نا ہے۔''
مزید لکھتے ہیں:
''جب یہ تجارت نہیں ہے تومضاربہ میں بھی شامل نہیں ہے۔''[3]
علامہ زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
"لَوْ قَارَضَهُ عَلَى أَنْ یَشْتَرِیَ بِالدَّرَاهِمِ نَخْلًا لِیَسْتَغِلَّهُ وَالرِّبْحُ بَیْنَهُمَا ؛ لِأَنَّ مَا حَصَلَ لَیْسَ بِتَصَرُّفِ الْعَامِلِ وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ عَیْنِ
[1] فتح القدیرشرح الوجیز: ۱۲/۱۱
[2] الہدایۃ مع البنایۃ: ۱۰/۵۲
[3] الہدایۃ مع البنایۃ: ۱۰/۸۷