کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 88
خریدےگا اور اُن سے پھل حاصل کر(کے نفع کمائے) گا تو یہ جائز نہیں ہوگا، کیونکہ مضاربہ میں خریدو فروخت کے ذریعے تصرف کی شرط ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مضاربہ ان معاملات کے ساتھ مختص ہے جہاں مال میں اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں ہو جبکہ کھجوروں میں یہ اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں نہیں، اس لیے اس کا مضاربہ باطل ٹھہرا اور یہ مساقات کا معاملہ بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس صورت میں یہ کھجوروں کی ملکیت وجود میں آنے سے پہلے مجہول درختوں پر عقد ہوگا ۔اسی طرح اگر اس طرح مضاربہ کرلے کہ وہ جانور یا مویشی خریدے گا جو بذاتِ خود تو اس کے پاس محفوظ ہوں گے مگر اُن کی پیدا وار حاصل کر ے گا تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا۔ وجہ وہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے یعنی یہ نفع خریدوفروخت کے نتیجے میں حاصل نہیں ہوا۔''
دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ
"لو قارضه علىٰ أن یشتری الحنطة فیطحنها ویخبزها والطعام لیطبخه ویبیعه والغزال لینسجه والثوب أو لیقصده والدبغ بینهما فهو فاسد...قارضه علىٰ دراهم على أن یشتری نخیلا أو دواب أو مستغلات ویمسك رقابها لثمارها ونتاجها وغلاتها وتکون الفوائد بینهما فهو فاسد لأنه لیس ربحًا بالتجارة بل من عین المال"[1]
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ مضاربہ کا مال تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ دوسری پیداواری سکیموں میں استعمال نہیں ہو سکتا جیسا کہ اگر کوئی اس بات پر مضاربہ کر لے کہ وہ گندم خرید کر اسے پیسے گا اور روٹی پکا کر اسے بیچے گا اور نفع دونوں میں تقسیم ہو گا تو یہ مضاربہ فاسد ہو گا کیونکہ یہ نفع تجارت کے ذریعے حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے خود مال سے جنم لیاہے۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم رافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
[1] روضۃ الطالبین: ۲/۱۸۸