کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 87
بشرط أن لا ینفذ ربّ المال هذه الضمانات إلا إذا ثبت التعدی أو التقصیر أو مخالفة شروط عقد المضاربة"[1] ''ربّ المال مضارب سے کافی اور مناسب ضمانتیں لے سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ ربّ المال اِن ضمانتوں کو اسی صورت نافذ کرے گا جب مضارب کی زیادتی یا کوتاہی یا عقدِ مضاربہ کی شرائط کی خلاف ورزی ثابت ہوجائے ۔'' خود اسلامی بینک بھی سیکورٹی ڈپازٹ کے بغیر اپنے کلائنٹ کے ساتھ 'اجارہ' وغیرہ کا معاملہ نہیں کرتے، لیکن ایک بھی اسلامی بینک ایسا نہیں جو اپنے ڈپازٹر کو یہ گارنٹی اور ان کا یہ اسلامی وشرعی حق دیتا ہو۔ پانچواں اُصول کتبِ فقہ میں مضاربہ کی بحث میں ایک اُصول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ مضاربہ کی بنیاد پر لئے گئے سرمائے سے صرف تجارت(Trading) ہی کی جاسکتی ہے ،تجارت کے علاوہ اسے کسی اور مقصد کےلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "عقد القراض یقتضی تصرف العامل في المال بالبیع والشراء، فإذا قارضه علىٰ أن یشتری به نخلا یمسك رقابها ویطلب ثمارها لم یجز لأنه قید تصرفه الکامل بالبیع والشراء، ولأن القراض مختص بما یکون النماء فیه نتیجة البیع والشراء وهو في النخل نتیجة عن غیر بیع وشراء فبطل أن یکون قراضًا ولا یکون مساقاة، لأنه عاقده علىٰ جهالة بها قبل وجود ملکها، وهٰکذا لو قارضه علىٰ شراء دوابّ أو مواشی یحبس رقابها ویطلب نتاجها لم یجز لما ذکرنا"[2] ''عقدِ مضاربہ کا تقاضا یہ ہے کہ مضارب خرید وفروخت کے ذریعے ہی مال میں تصرف کرے لہٰذا جب وہ اس طرح مضاربہ کرے کہ وہ اس مال سے کھجوروں کے درخت
[1] المعاییر الشرعیہ: ص 185 [2] المجموع شرح مہذب: ۱۴/۳۷۱