کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 86
کرو گے اور اگر تم نے ایسا کیا تو میرے مال کے نقصان کی ذمہ داری تم پر ہوگی ۔'' مروّجہ اسلامی بینکوں کے کھاتے داران اس حوالے سے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کا کام صرف رقوم جمع کرانا ہے۔ ان رقوم سے کونسا کاروبار کرنا ہے یا بینک اس کو کہاں استعمال کرے گا ؟یہ بنک انتظامیہ کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے،کھاتے دارن اس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے ۔چنانچہ ہر 'بزعم خود' اسلامی بینک کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ صراحت ہوتی ہے : ''بینک بحیثیتِ مضارب اپنی صوابدید پر صارفین سے وصول شدہ رقم کی سرمایہ کاری وعدم سرمایہ کاری کسی بھی کاروبار ( کاروبار ، ٹرانزیکشن ،پروڈکٹ) میں کرسکتا ہے جو بینک کے 'شریعہ ایڈوائزر' سے منظور شدہ ہو ۔'' یہ درست ہے کہ سرمایہ کار مضارب کو یہ اختیار دے سکتا ہے کہ وہ جس کاروبار اور تجارت میں پیسہ لگانا چاہے لگاسکتا ہے یا جس علاقے میں مناسب سمجھے کاروبار کر سکتا ہے لیکن مضارب کی طرف سے سرمایہ کار کا یہ حق اُصولی طور پر سلب کیاجانا غیر منصفانہ اقدام ہے جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ چوتھا اُصول مضاربہ میں سرمایہ کار یہ گارنٹی تو طلب نہیں کر سکتا کہ اسے اتنے فیصد منافع ہر حال میں ادا کیاجائے گا خواہ مضارب کوفائدہ ہو یا نقصان، کیونکہ ایسا منافع سود کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا، لیکن وہ مضارب سے یہ گارنٹی لے سکتا ہے کہ وہ اپنا فرض پوری دیانتداری اور تندہی سے ادا کرے گا اور ان شرائط کے مطابق ہی کاروبار کرے گا جو فریقین کے مابین طے ہوئی ہیں اور اگر معاہدے میں طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی یا اس کی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا تو وہ اس کا ازالہ کرے گاجیسا کہ المعاییر الشرعیة میں ہے : "یجوز لربّ المال أخذ الضمانات الکافیة والمناسبة من المضارب