کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 85
''منافع میں یہ شرط ہے کہ اس کی تقسیم کی کیفیت اس طرح معلوم ہو کہ اس میں کوئی بے خبری اور نزاع کا امکان باقی نہ ہو۔''
جب کہ مروّجہ اسلامی بینکوں میں اکاؤنٹ کھولتے وقت منافع کے تقسیم کی شرح بالکل واضح نہیں کی جاتی بلکہ بینک اس کااعلان مضاربہ شروع ہونے کے بعد کرتاہے ۔چنانچہ اسلامی بینکوں کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ عبارت درج ہوتی ہے :
''بینک ڈپازٹر کے ساتھ کاروبار سے حاصل ہونے والے اجمالی نفع (Gross Income) میں اس شرح سے شریک ہوگا جس کااعلان بینک نے ہر مہینے یاعرصے کے آغاز میں کیاہوگا ۔ بینک کا حصہ وقتاً فوقتاً تبدیل ہوسکتا ہے اور اس کا بھی متعلقہ مہینے یاعرصے کے پہلے ہفتے کے اندر اندر اَوزان کے ساتھ اعلان کیاجائے گا ۔''
اس سے یہ ثابت ہوا کہ مروّجہ اسلامی بینکوں میں مضاربہ شروع کرتے وقت منافع کے تقسیم کی شرح معلوم نہیں ہوتی بلکہ بعد میں بتائی جاتی ہے اور بینک جب چاہے اس کو تبدیل بھی کر سکتا ہے جس سے مضاربہ باطل ہوجاتا ہے۔
تیسرا اُصول
شرعی نقطۂ نظر سے مضاربہ کے معاہدہ میں سرمایہ کارکا حق فائق ہوتا ہے یعنی وہ مضارب پر کسی مخصوص شخص یا کمپنی کے ساتھ لین دین کرنے یا کسی خاص جگہ پر کاروبار کرنے کی پابندی عائد کر سکتا ہے اور ان اشیا کا تعین بھی کر سکتا ہے جن کے علاوہ تجارت نہیں کی جاسکتی اور اگر مضارب اس کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو وہ سرمایہ کار کے سرمائے کا ذمہ دار ہوگا جیساکہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ جب وہ کسی کو مضاربہ پر مال دیتے تو یہ شرط عائد کرتے:
"أن لاتجعل مالي في کبد رطبة ولا تحمله في بحر ولاتنزله به في بطن مسیل، فإن فعلتً شیئًا من ذلك فقد ضمنت مالي"[1]
'' میرے مال سے جانور نہیں خریدوگے اور نہ اس سے سمندر اور کسی وادی میں تجارت
[1] بلوغ المرام، باب القراض: 894