کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 84
بنیاد پر ہی کھولے جاتے ہیں یعنی بینک میں رقم رکھنے والے ربّ المال اور بینک مضارب ہوتا ہے لیکن کسی بھی اسلامی بینک میں اس اُصول پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ہر اسلامی بینک کے 'اکاؤنٹ اوپننگ فارم' میں یہ عبارت درج ہوتی ہے:
''بینک کی جانب سے متعین کردہ کوئی بھی رقم بطورِ نفع یا نقصان حتمی ہو گی اور تمام صارفین اس کے پابند ہوں گے ۔کسی صارف کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ ایسے نفع یا نقصان کے تعین کی بنیاد کے بارے میں سوال کرے ۔''
بینک کی طرف سے اکاؤنٹ ہولڈر پر یہ پابندی عائد کرنا عدل وانصاف کے منافی اور ربّ المال کی حق تلفی ہے۔اس ناروا شرط کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر سرمایہ جمع کرانے والے (ڈپازٹرز) کے منافع کی شرح وہی ہے حتیٰ کہ بعض اسلامی بینکوں کے منافع میں ایک سال کے دوران ایک سو چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، لیکن ڈپازٹر ز کے منافع میں اس حساب سے اضافہ نہیں کیاگیا ،صرف ایک آدھ فیصد اوپر نیچے کیاجاتا ہے جو کہ سرا سر زیادتی ہے ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مروّجہ اسلامی بنک بد دیانتی کے مرتکب ہیں اور ان میں رائج مضاربہ حقیقی معنوں میں 'اسلامی مضاربہ' نہیں ہے ۔
دوسرا اُصول
مضاربہ کے صحیح ہونے کا دوسرا اُصول یہ ہے کہ فریقین بالکل شروع میں ہی منافع کے تقسیم کی شرح طے کر لیں یعنی یہ فیصلہ کر لیں کہ منافع سرمایہ کار اور مضارب میں مساوی تقسیم ہوگا یا سرمایہ کار منافع کے ساٹھ فیصد کا اور مضارب چالیس فیصد کا حق دار ہو گا، کیونکہ مضاربہ میں منافع ہی معقود علیہ ہوتا ہے اور اگر یہ مجہول ہو تو مضاربہ فاسد ہو گا ۔ جیسا کہ اسلامی بینکنگ کیلئے اسلامی ماہرین کے طے کردہ ضوابط پر مشتمل کتاب المعاییر الشرعية میں ہے :
"یشترط في الربح أن تکون کیفیة توزیعه معلومة علمًا نافیا للجهالة ومانعًا للمنازعة"[1]
[1] المعاییر الشرعية للمؤسسات المالية الأسلامية: ص 185