کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 83
منافع طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم ہوگا۔''[1] مضاربہ کے اُصول وضوابط مضاربہ میں دوفریق ہوتے ہیں : 1. ایک کاروبار کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والاجسے ربّ المال کہاجاتا ہے۔ 2. دوسرا کاروبار کرنے والا فریق جسے 'مضارب' کہتے ہیں۔ ربّ المال یعنی سرمایہ فراہم کرنے والا براہِ راست کاروبار یا انتظام کاروبار میں حصہ تو نہیں لے سکتا، البتہ اسے کاروباری پالیسیوں کے متعلق اعتماد میں لینا، حسابات کی تفاصیل معلوم کر نا اور کاروبار کی مناسب نگرانی کرنااس کا بنیادی حق ہے تاکہ مضارب بددیانتی اور غفلت کامرتکب نہ ہو جس سے کسی عالم ، فقیہ اور مجتہد کواختلاف نہیں، کیونکہ یہ دونوں کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہیں کہ ایک کی محنت اور دوسرے کا سرمایہ شامل ہے لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سرمایہ کار کو کاروبار کی نگرانی اور اس بات کو یقینی بنانے کااختیار دیاجائے کہ مضارب اپنا فرض پوری دیانت داری سے ادا کر رہا ہے یا نہیں اور اگر عقلی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ہے کہ ایک شخص نے خطیر رقم دی ہو اور اسے کاروبار سے بالکل ہی الگ تھلگ رکھاجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے یہ پوچھاگیا : ''ایک شخص نے دوسرے کو مضاربت پر مال دیا ،اُس نے محنت کی جس کے نتیجے میں اسے منافع حاصل ہوا ۔اب مضارب یہ چاہتا ہے کہ وہ سرمایہ کار کی غیر موجودگی میں منافع سے اپنا حصّہ وصول کر لے تو کیایہ درست ہے ؟ اس پرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : "لاَ یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْهُ شَیْئًا إِلاَّ بِحَضْرَةِ صَاحِبِ الْمَالِ"[2] ''جب تک ربّ المال موقع پر موجود نہ ہو مضارب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ منافع سے اپنا حصّہ وصول کرے ۔'' مروّجہ اسلامی بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹس کے علاوہ بقیہ تمام اکاؤنٹس عام طور پر مضاربہ کی
[1] مصنّف ابن ابی شیبہ: 20336 [2] موطأ باب المحاسبۃ فی القراض: ص 699