کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 82
وَلاَ يَنْزِلَ بِهِ وَادِيًا وَلاَ يَشْتَرِىَ بِهِ ذَاتَ كَبِدٍ رَطْبَةٍ فَإِنْ فَعَلَ فَهُوَ ضَامِنٌ فَرُفِعَ شَرْطُهُ إِلَىٰ رَسُولِ اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم فَأَجَازَهُ)) [1]
''جب وہ کسی کو وہ مضاربت پر مال دیتے تو یہ شرط لگاتے کہ وہ یہ مال سمندر میں نہیں لے جا سکتا اورکسی وادی میں بھی نہیں لے جائے گا اور نہ اِس سے جانور خریدے گا۔ اگر اُس نے ایسا کیا تو نقصان کا ضامن وہ خود ہوگا۔ ان کی یہ شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔''
تاہم یاد رہے کہ سند کے لحاظ سے مذکورہ بالا دونوں روایات ضعیف ہیں۔
3. سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی انہی شرائط کے ساتھ مضاربت پر مال دیا کرتے تھے۔[2]
4. سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی مضاربہ کی بنیاد پر مال دیاتھا ۔[3]
5. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ اور عبیداللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق گئے ۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو اُن کی ملاقات بصرہ کے گورنر ابوموسی اشعری سے ہوئی ،اُنہوں نے کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ تمھیں کوئی فائدہ پہنچا سکوں ۔میرے پاس بیت المال کا کچھ مال ہے جو میں مدینہ منورہ میں امیر المؤمنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں ، میں وہ مال تمھیں بطورِ قرض دے دیتا ہوں تم یہاں سے کچھ سامان خرید لو اور مدینہ منورہ میں وہ سامان بیچ کر اصل سرمایہ بیت المال میں جمع کرا دینا اور نفع خود رکھ لینا ۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیالیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر راضی نہ ہوئے اور اُنہوں نے اسے مضاربہ قرار دے کر اصل سرمائے کے علاوہ اُن سے آدھا نفع بھی وصول کیا۔[4]
6. سنن بیہقی اور مصنّف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
''مضاربہ میں ہر سرمایہ کار اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا اور
[1] سنن الکبریٰ: 6/111
[2] سنن دارقطنی:3077
[3] موطأامام مالک، کتا ب القراض، باب ماجاء فی القراض: 688
[4] موطأ امام مالک، کتا ب القراض، باب ماجاء فی القراض: 687