کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 81
نگاہ میں یہ طریقہ سرا سر باطل اور حرام ہے، کیونکہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کا کرایہ لیا جاسکے ،لہٰذا قرآن نے اِسے سود قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ۔ 2. سرمایہ دار اس شرط پر سرمایہ دیتا کہ کاروبار سے جو منافع حاصل ہوگا، وہ اس کے اور کاروباری فریق کے درمیان ایک طے شدہ تناسب (Ratio)سے تقسیم ہوگا ۔اس طریقِ کار کو مضاربہ کہاجاتا ہے جس کا لغوی معنی ہے :''سفر کرنا ''اور اس کا نام مضاربہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ کاروباری فریق اپنی سفری کوشش اور محنت کے بدلے نفع کا حق دار بنتا ہے۔ مضاربہ میں چونکہ سرمایہ کار اپنے مال کا کچھ حصہ الگ کر کے دوسرے فریق کے حوالے کر دیتا ہے، اس لئے بعض اہل علم اسے قراض یامقارضہ بھی کہتے ہیں جس کا معنی ہے ' کاٹنا'۔ اسلامی شریعت نے بھی اس طریقہ کار کو برقرار رکھا ہے اور بعض شرائط اور پابندیوں کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بعثت سے قبل حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے مال سے مضاربت کی بنیاد پر تجارت کی تھی اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار کئے۔ مضاربہ کے بارے میں احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کتبِ حدیث میں ہمیں مضاربہ کے متعلق درج ذیل روایات ملتی ہیں: 1. سنن ابن ماجہ میں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ثَلاَثٌ فِیهِنَّ الْبَرَکَةُ: الْبَیْعُ إِلَى أَجَلٍ وَالْمقَارَضَةُ وَاخْلاَطُ الْبُرِّ بِالشَّعِیرِ لِلْبَیْتِ لاَ لِلْبَیْعِ)) [1] ''تین چیزوں میں برکت ہیں:معینہ مدت کے لئے اُدھار فروخت کرنا۔مضاربہ کی بنیاد پر کسی کو مال دینا ۔گھریلو ضرورت کے لئے گندم میں جو کی ملاوٹ کرنا... نہ کہ بیچنے کے لئے (ایسا کرنا جائز نہیں)۔'' 2. سنن بیہقی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہے کے بارے میں منقول ہے : ((إِذَا دَفَعَ مَالاً مُضَارَبَةً اشْتَرَطَ عَلَى صَاحِبِهِ أَنْ لاَ يَسْلُكَ بِهِ بَحْرًا
[1] سنن ابن ماجہ: 2289