کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 80
معیشت و اقتصاد ذوالفقار علی مروّجہ اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ کی شرعی حیثیت ﴿وَإِنَّ كَثيرً‌ا مِنَ الخُلَطاءِ لَيَبغى بَعضُهُم عَلىٰ بَعضٍ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَقَليلٌ ما هُم...24﴾[1] ''اور اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار ہوں اور نیک عمل کرتے ہوں اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔'' یہ امر واضح ہے کہ روپے پیسے میں اضافہ کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے اسے کسی کاروبار میں لگانا ضروری ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ موجود ہو اور وہ اسے کسی کاروبار میں نہ لگائے تو وہ دس سال کے بعد بھی دس لاکھ ہی رہے گا ،اس کو دس لاکھ پچاس ہزار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس سے کوئی کاروبارکیاجائے اور کسی مصرف میں لایا جائے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں اور ہر دور میں رہے ہیں جن کے پاس سرمایہ تو موجود ہوتا ہے مگر وہ کاروبار کی صلاحیت نہیں رکھتے یا وہ کاروبار کرنا ہی نہیں چاہتے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کاروباری مہارت تو رکھتے لیکن اُن کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، لہٰذا ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے؛ یعنی جن لوگوں کے پاس سرمایہ نہیں، وہ ان لوگوں سے سرمایہ لے کر اس سے کاروبار کرسکیں یا ایسے لوگوں کی مدد سے اپنے پہلے سے جاری کاروبار کو ترقی دے سکیں جن کے پاس اپنی ضرورت سے زائد سرمایہ موجود ہو اور اس کا فائدہ سرمایہ کار کو بھی پہنچے۔ ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں اس کی دو صورتیں رائج تھیں: 1. سرمایہ دار ضرورت مند کو سرمایہ دے کر اس کا ایک طے شدہ کرایہ وصول کرتا ۔ اسلام کی
[1] سورة ص: 24