کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 79
4۔ مسجد اصلاحی، رفاہی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا مرکز مسجد نہ صرف عبادت کی جگہ ہے بلکہ اصلاحی ، رفاہی اور فلاح و بہبود کا مرکز بھی ہے۔ اس لیے اس کی اس حیثیت کو مزید مضبوط اور بہتر کیا جائے اوراس کے رول کو پھر سے بحال کیا جائے۔ روزمرہ کے معاملات کے لیے درج ذیل انتظامات کیے جائیں: ا۔ ایمبولینس سروس ب۔ فری ڈسپنسری ج۔ لوکل عدالت او رپنچائت کمیٹی د۔ مہمان خانہ کا قیام 5۔ دارالمطالعہ مسجد میں مناسب لائبریری ہونی چاہیے اور کتب بینی کے لیے بھی پرسکون ماحول مہیا کیا جانا چاہیے۔ مطالعہ کے لیے جدید رسائل و اخبارات اور نئی چھپنے والی کتابیں بھی مہیا ہونی چاہیے، اس لائبریری میں کمپیوٹر او رانٹرنیٹ کی سہولت بھی ہو تاکہ اسلام پر ہونے والی ریسرچ کا مطالعہ ومشاہدہ ہوسکے۔ 6۔ امریکہ ، برطانیہ او ریورپ کی مساجد امریکہ و برطانیہ اور یورپ میں مساجد جدید سنٹر کی شکل میں بنائی گئی ہیں اور وہاں معاشرتی زندگی کی تمام ضروریات اور تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ روحانی، مادی، مالی اور دیگر پروگرام بھی مساجد کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں، اس لیے وہ مسلمان ممالک کی بنسبت زیادہ فعال اورجاندار کردار ادا کررہی ہیں۔ وہاں غیر مسلموں او رمسلمانوں کے شبہات اور سوالات کا شافی جواب دینے کےلئے انتظام ہوتا ہے،وہاں مساجد میں ابتدائی تعلیم کی سہولت بھی ہے بچوں اور بڑوں کیلئے تفریح کے مواقع بھی ہیں، وہاں اضافی طور پر درج ذیل مراعات کا انتظام ہوتا ہے: ا۔ شام کا اصلاحی سکول : شام کا سکول اہم ادارہ ہے جو نئی نسل کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یورپ کے معاشرے اور نظام زندگی اپنانے والے اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ادارے مسلمان بچوں اور بڑوں کو ان کی شناخت، ثقافت، مذہب، روایات زندہ رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔قرآن کی تعلیم کے ساتھ عربی اور اُردو کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ب۔ بوڑھوں کے لئے مرکز : یورپ میں خاندانی نظام نہیں ہے۔ بڑھاپے میں لوگ بے سہارا او ربے آسرا ہوتے ہیں۔ ان عمر رسیدہ لوگوں کے لیے مساجد ایک عظیم پناہ گاہ کا درجہ رکھتی ہیں یہ ادارے ان کی دیکھ بھال کا فرض بھی ادا کررہے ہیں۔ ج۔ مکتبہ اور دارالمطالعہ : ان مساجد میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہر طرح کا لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے۔ پڑھنے والوں کے لیے مختلف زبانوں میں کتابیں، رسائل اور اخبارات ہوتے ہیں۔ د۔ دیگر سرگرمیاں: مساجد میں بڑے بڑے اجتماعات اور دیگر پروگرام ہوتے ہیں خصوصاً رمضان المبارک میں مسلمان مرد اور عورتیں بچے مل کر اجتماعی افطاریاں کرتے ہیں۔ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں سب کے لیے دلچسپی کے مواقع الگ الگ مہیا کئے جاتے ہیں۔ خلاصہ:اسلامی معاشرے میں مساجد کا کردار نمایاں اور عیاں ہے۔ آج کل کے معاشرے میں انارکی او رافراتفری ہے۔ ہر طرح کے جرائم:معاشی ، معاشرتی، اخلاقی، جنسی عام ہورہے ہیں۔ انسانیت کا خون ارزاں ہے، شدت پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت کی فضا قائم ہے۔ غربت و افلاس مسلمانوں کا مقدر بن گیا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں شہروں اور قصبوں میں لاکھوں مساجد ہیں مگر اُن سے اصلاحِ معاشرہ کا کام نہیں لیا جارہا۔ منبر و محراب سے اُٹھنے والی صدا کچھ اور ہے۔ آج کے اس پُرفتن دور میں ہمیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے مسجد کے کردار کو پھر سے فعال بنانا ہوگا او ر اِنہی خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا جنہیں اپنا کر عرب کے بدو دُنیا کے امام اور رہبر بن گئے۔ سبق پڑھ پھر صداقت کا ، عدالت کا،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا