کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 76
مسلمانوں کے عقائد اور ایمان کو متزلزل کیا۔ انتشار پیدا کیا اورمساجد کا استعمال کرکے سادہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور مسجد کے کردار کو مثبت کی بجائے منفی رنگ دے دیا ہے۔[1]
یہ چند اندرونی و بیرونی اسباب ہیں جو مساجد کے کردار کوبے جان بنا رہے ہیں۔
موجودہ دور میں مسجد کے اصلاحی کردار کی بحالی کے لیے اقدامات اور تجاویز
دورِ حاضر میں ہماری اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھر چکا ہے جو اُمت مسلمہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ یہ اُمت واحدہ اب مختلف فرقوں، گروہوں، گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مسلم معاشرہ بگاڑ، انتشار، خلفشار، گمراہ کن افکار، رذیلہ اخلاق و کردار کا بھیانک نمونہ پیش کررہا ہے۔ اخلاقی جرائم بے حیائی، فحاشی کا طوفانِ بدتمیزی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ معاشرے میں بے چینی، بدامنی، بے سکونی، وحشت و دہشت گردی عام ہے ۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی، رہزنی، بددیانتی، بدعہدی، رشوت، دھوکہ دہی، ملاوٹ، جھوٹ، فریب کا چلن ہے۔ان مفاسد کو ختم کرنےکے لئے ایسے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جوقرونِ اولیٰ میں کئے گئے تھے کہ جس کی بدولت وہ معاشرہ امن و سکون، محبت وآشتی اور خوشحالی کا ایسا بے مثال نمونہ بن گیا تھا کہ یمن کے دارالخلافہ صنعا سے ایک اکیلی عورت حج کے لیے تمام زیب و زینت اور زیورات پہن کر چلی تو مکّہ تک اس کی طرف کوئی نظر اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ وہ معاشرہ اس قدر مصلح، تربیت یافتہ اور خوشحال بن گیا تھا کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے نکلتے تھے کہ کوئی وصول کرنے والا مستحق نہیں ملتا تھا۔[2]
کرنے کے کام
یقیناً اس دور کا آغاز مسجد کے ساتھ مضبوط تعلق سے ہوا تھا۔ آج اگر ہم اپنے بگڑے اور تباہ حال معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پھر سے معاشرے میں مسجد کی اجتماعیت، مرکزیت کا وہ مقام واپس لانا ہوگا اور یہ اقدامات کرنا ہوں گے:
[1] المسجد و نشاطہ الاجتماعی علی مدار التاریخ از عبداللہ قاسم الوشلی، ص365 تا 398
[2] تاریخ اسلام، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی