کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 75
الجزائر پر قبضہ کیا۔[1]
ب۔ یہود : یہودیوں کی اسلام دشمنی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور مذکورہ بالا مسجد ضرار یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ کاوش تھی۔ یہودیوں نے تحویل قبلہ کےموقع پر پروپیگنڈہ کیا اور مسلمانوں کے دلو ں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہودیوں نے ہمیشہ مسجدوں کی بے حرمتی کی اور مسلسل مساجد کے خلاف ان کی ناپاک سازشیں جاری رہی کیونکہ یہ مسلم معاشرے کا محور تھی۔آج کے دور میں مسجدِ اقصیٰ کےساتھ یہودی جو کچھ کررہے ہیں ، اس سے ان کی مساجد دشمنی بالکل ظاہر وباہر ہوجاتی ہے۔
ج۔ کمیونسٹ اورمسجد: کمیونسٹ اور سوشلسٹ انقلاب کی تباہ کاریوں کا شکار مسلمانوں کی مساجد، مدارس اور اسلامی تہذیب و تمدن ہوئی۔ روس میں 1912ء میں 26275 مساجد تھی جو 1942ء میں صرف 1312 باقی رہی اور 1964ء تک یہ تعداد 250 رہ گئی۔ ایک سروے کے مطابق مسجدوں کی ویرانی، بربادی اور انہدام کچھ یوں تھا:
1. وسطی ایشیا اور ترکستان میں چودہ ہزار مساجد ختم کی گئیں۔
2. آذربائیجان میں چار ہزار اور جنوبی ایشیا میں سات ہزار مساجد کو گرایا گیا۔
چین کے ثقافتی انقلاب میں بھی مذہبی سرگرمیاں ممنوع قرار پائی اور مسجد اور دیگرمذاہب کی عبادت گاہوں کو بند کیا گیا یا اُن کو تباہ کردیا گیا۔ مذہبی کتابوں کوگھروں میں رکھنا بھی جرم قرار پایا۔[2]
د۔ ہندو، سکھ اور مساجد: انتہا پسند اور متعصّب ہندو اور سکھ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے بھی شعائر اسلامیہ کے خلاف سنگین معاندانہ رویہ اپناے رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہزاروں مساجد کو گرایا ،جلایا گیا یا جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردیا گیا اور بابری مسجد کی شہادت ہندوؤں کے خبثِ باطن کو واضح کردیتی ہے۔ سکھوں نے بھی مساجد کی بے حرمتی کی اور ہمیشہ مسجد دشمنی میں پیش پیش رہے۔
ر۔ بہائی اور قادیانی: بہائی اور قادیانی مذہب کے پیروکاروں نے یہود و نصاریٰ کا آلہ کار بن کر
[1] المسجد و نشاطہ الاجتماعی علی مدار التاریخ از عبید قاسم وشلی
[2] جہاں دیدہ از مولانا تقی عثمانی، ص458