کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 74
مسجدِ ضرار کی صورت میں سامنے آیا جو قبیلہ خزرج کے ابوعامر نامی شخص جو عیسائی بن گیا تھا، کے مشورہ سے منافقین مدینہ نے بنائی تھی اور ان کے مذموم اور ناپاک مقاصد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
﴿لا تَقُم فيهِ أَبَدًا ۚ لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ ۚ فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ 108﴾[1]
اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے ایک مسجد بنائی اس مقصد کے لیے کہ دعوتِ حق کو نقصان پہنچایا جائے اور اللہ کی بندگی کی بجائے کفر کریں اور مؤمنوں میں پھوٹ اور خلفشار پھیلائیں اور اس عبادت گاہ کو اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُٹھ چکا ہے۔ وہ ضرور قسم کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ صرف بھلائی کا ہے مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں، تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔
مسجد ضرار کے تین اہم مقاصد
1. کفر و شرک اور گمراہی پھیلانے کے لیے ایک اڈا بنانا۔
2. مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دینا اور انتشار پھیلانا۔
3. شرپسند اور سازشی ٹولے کو مذہبی لبادے میں پناہ دینا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہلاکو خان کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے میں اہم کردار عیسائیوں اور نصرانیوں کا ہے اور اسے تین چیزوں سے سخت نفرت تھی:
1. کتابوں سے... اس لیے وہ ساری کتب دریاؤں میں پھینکتا رہا۔
2. مساجد سے... جنہیں وہ گراتا گیا۔
3. پکی عمارتوں سے... وہ اُنہیں بھی برباد کرتا رہا۔
آخری صلیبی جنگ (1609ء) میں مسلمانوں پر پابندیاں لگانے پرختم ہوئی۔ ان میں سے مساجد کو بند کرنا، انہیں گرجا گھروں میں تبدیل کرنا ، اسپینی لباس پہننا، غسل کی ممانعت وغیرہ شامل تھا۔ الجزائر میں بھی بہت سی مساجد کو عیسائیوں نے اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کردیا اور ہزاروں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ ان کا یہ کردار اس وقت ظاہر ہوا جب انہوں نے 1632ء میں
[1] سورۃ التوبۃ:108