کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 71
غیبت، دھوکا، ٹھگی، چغلی، رشوت، چوری اور بے حیائی وغیرہ سے جزوی طور پر رُک جاتا ہے اور آخرکار مکمّل طور پر ان معاشرتی برائیوں اور لعنتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا عادی ہوجاتا ہے۔
ج۔ منشیات وغیرہ سے بچاؤ: آدابِ مسجد کو ملحوظ رکھ کر مسجد میں جانے والا اس تباہ کن عادت سے بچا رہتا ہے،کیونکہ نشہ اور حواس باختگی کے عالم میں اسلام نے نماز کی ادائیگی سے منع کیا ہے اس لیے نمازی منشیات اور نشہ آور اشیا سے بچتا ہے۔
4۔ ثقافتی کردار
مَساجد کا ایک کردار ثقافتی ہے۔ اسلامی ثقافت مسلمان کی زندگی کی عکاس ہوتی ہے اس سے مراد وہ اعمال و افعال ہیں جو اسلام کی آمد کے بعد وجود میں آئے اور ان کا تعلق مسجد سے ہے:
ا۔ خیرات : مسجد میں نمازِ جمعہ، رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر ، زکوٰۃ و صدقات اور خیرات دینے کا جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے جس سے بہت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
ب۔ اسلامی وضع قطع: مسلمان جب بھی مسجد کا رُخ کرتا ہے تو وہ اپنے لباس، وضع قطع اور دیگر اُمور کا اہتمام ضرور کرتا ہے، اس طرح مسلمانوں کی ایک ثقافت باقی رہتی ہے جو صرف مسجد کی بدولت ہے۔
ج۔ ملاقات کے آداب: مسلمان جب مسجد میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ ضرور کرتے ہیں، خاص طور پر عیدین اور جمعہ کےموقع پر تو ناراض لوگ بھی آپس میں شیروشکر ہوجاتے اورایک دوسرے کو عیدین کی مبارک باد دیتے ہیں جو معاشرے میں نفرتوں کےخاتمہ کا ذریعہ ہے۔
د۔ مسجد اور تعلیم: مسجدایک ایسا ادارہ ہے جو تعلیم و تربیت میں بنیادی اور اہم کردار کا حامل ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں مسجد ہی وہ درسگاہ تھی کہ تمام علوم و فنون اس میں پڑھائے جاتے تھے [1]اور سب سے پہلے درس گاہ 'اصحابِ صفہ 'کے نام سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قائم ہوئی تھی۔ مسجد میں درسِ قرآن و حدیث کے ساتھ فقہ کے مسائل بیان کرنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ علم و عرفان کا بہت سا حصّہ مسلمان مسجد سے ہی سیکھتے ہیں اور ایک زمانے
[1] تاریخ ابن خلدون