کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 64
جمع نہ کیاجائے۔
4. اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کاموں کی صرف اجازت ہے، ان کی حیثیت فرض وواجب اور امر لازم کی نہیں ہے۔ جیسے مذکورہ دو صحابیوں کے واقعے میں ہے:
قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ
''ہمیں شادی کے موقعے پر لَهْو کی رخصت دی گئی ہے۔''
5. اور یہ مسلمہ اُصول ہے کہ ایک جائز کام، حدود و ضوابط کے دائرے میں نہ رہے اور اس کا ارتکاب بہت سے محرمات و منہیات تک پہنچا دے تو ایسی صورتوں میں وہ جائز کام بھی ناجائز اور حرام قرار پائے گا۔
موجودہ حالات میں اظہارِ مسرت کا مذکورہ جائز طریقہ، ناجائز اور حرام ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی اور اس پر عمل کرنے کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقعوں پر وہ اللہ و رسول کے احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محرمات و منہیات کا نہایت دیدہ دلیری سے ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ مہندی کی رسم اور اس میں نوجوان بچیوں کا سرعام ناچنا گانا، ویڈیو اور مووی فلمیں بنانا، بے پردگی اور بے حیائی کا ارتکاب، بینڈ باجے، میوزیکل دھنیں اور میوزیکل شو، آتش بازی وغیرہ۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب غیروں کی نقالی اور اسلامی تہذیب و روایات کے یکسر خلاف ہیں۔ اسلام سے ان کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔
یہ صورت حال اس امر کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں دف بجانے اور قومی گیت گانے سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی شریعت کی بتائی ہوئی حد تک محدود نہیں رہتا اور محرمات تک پہنچے بغیر کسی کی تسلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اسلام کے مسلمہ اصول سَدًّا لذریعة کے تحت یہ جائز کام بھی اس وقت ممنوع ہی قرار پائے گا جب تک قوم اپنی اصلاح کرکے شریعت کی پابند نہ ہو جائے اور شریعت کی حد سے تجاوز کرنے کی عادت اور معمول کو ترک نہ کر دے۔