کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 63
کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ''شادی کے موقعے پر ہمیں لَهْو(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے۔''[1] مذکورہ روایات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ ان احادیث سے دو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرے، ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف و نجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے: 1. خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتااور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔ اسی لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے: ((اَعْلِنُوْا النِّکَاحَ)) [2] ''نکاح کا اعلان کرو۔'' یعنی علانیہ نکاح کرو، خفیہ نہ کرو۔ اس حکم سے مقصود خفیہ نکاحوں کا سدباب ہے جیسے آج کل ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ نکاح بصورت لو میرج، سیکرٹ میرج اور کورٹ میرج کیے جا رہے ہیں، عدالتیں اور فقہی جمود میں مبتلا علما ان کو سند جواز دے رہے ہیں حالانکہ احادیث کی رو سے یہ سب نکاح باطل ہیں، یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتے۔ 2. یہ کام صرف چھوٹی یعنی نابالغ بچیاں کر سکتی ہیں، بالغ عورتوں کو ان کاموں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مردوں ہی کو اس کی اجازت ہے۔ 3. یہ کام نہایت محدود پیمانے پر ہو۔ محلے کی یا خاندان اور قبیلے کی بچیوں کو دعوتِ دے کر
[1] سنن نسائی:۳۳۸۵ [2] صحیح ابن حبان:۱۲۸۵؛آداب الزفاف:ص۹۷