کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 62
کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔
2. عہد نبوی کا ایک دوسرا واقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہانے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے خاوند (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: تمہارے پاس 'لہو' نہیں ہے؟ ((مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ؟)) انصار کو لہو پسند ہے،
((فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ)) [1]
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، ایک دوسری روایت میں مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ کی جگہ الفاظ ہیں:
((فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی))
''کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یا لونڈی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔''
اسی طرح فَإِنَّ الْأنْصَارَ یُعْجِبُهُمُ اللَّهْو کی جگہ دوسری روایت میں ہے:
((قَوْمٌ فِیْهِمْ غَزْلٌ)) [2]
''انصاریوں میں شعروشاعری کا چرچا ہے۔''
اس دوسری روایت کے الفاظ سے پہلی روایت میں وارد لفظ لَهْو کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ واقعہ مذکورہ میں اس سے مراد چھوٹی بچی کا دف بجا اور قومی گانا گا کراظہارِ مسرت کرنا ہے۔
3. محمد بن حاطب سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ)) [3]
''حرام اور حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح میں آواز بلند کرنا ہے۔''
4. ایک اور واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے، عامر بن سعد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول حضرت قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے
[1] صحیح بخاری:۵۱۶۲
[2] فتح الباری:۹/۲۸۲
[3] سنن نسائی:۳۳۷۱