کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 61
آماج گاہ بنی رہتی ہے۔ ان تمام خرافات اور شیطانی رسومات و حرکات کے جواز کے لیے ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں شادی اور عید یعنی خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کو دف بجانے اور قومی مفاخر پر مبنی نغمے اور ملی ترانے گانے کی اجازت دی گئی ہے۔ 1. جیسے حضرت ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی عمل میں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس اس طرح آ کر بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے (راوی سے خطاب ہے) ۔تب چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر) دف بجا کر شہداے بدر کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اچانک ان میں سے ایک بچی نے کہا: ((وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ)) ''ہمارے اندر ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: ((دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ)) [1] ''اس کو چھوڑ اور وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔'' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (چھوٹے، بڑے سب) صحیح العقیدہ تھے۔اس لیے بچی کے مذکورہ قول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت عقیدۂ علم غیب کا اظہار تھا بلکہ آپ کی رسالت کا اظہار تھا کہ رسول پر وحی کا نزول ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اپنے احکام سے بھی مطلع فرماتا ہے اور آئندہ آنے والے واقعات سے بھی بعض دفعہ باخبر کر دیتا ہے۔ بچی کے شعری مصرعے کا مطلب اسی وحیٔ الٰہی کا اثبات تھا، پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح کہنے سے روک دیا کہ مبادا بعد کے لوگ بدعقیدگی کا شکار ہو جائیں۔ علاوہ ازیں ایک د وسری روایت میں صراحتاً بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَلَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا اللّٰه )) [2] ''کل کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔'' بہرحال اس واقعے سے خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھ کر اظہارِ مسرت
[1] صحیح بخاری:۵۱۴۷ [2] طبرانی، بحوالہ'آداب الزفاف'از شیخ البانی، ص:۹۵