کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 60
اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت دیگر دنیاوی ترجیحات کے مقابلے میں دین دار عورت کا انتخاب کرو۔ تاکہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر معاملے میں شریعت کے احکام کو بروئے کار لانے میں مرد کا ساتھ دے، اس کی مخالفت اور اپنی من مانی نہ کرے۔ الغرض شادی بیاہوں کی مذکورہ رسومات اور ان کی حشرسامانیوں سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ دین سے ہماری وابستگی برائے نام نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور ہماری خواتین بھی دینی ا قدار و روایات کی پابند اور اس کا صحیح نمونہ ہوں جس کا مظاہرہ شادی بیاہ کی تقریبات میں واضح طور ہو۔ وہ شادی کی تقریب اپنے ہی کسی بچے یا بچی کی ہو یا خاندان کے کسی اور گھرانے کی، دیکھنے والے دیکھیں کہ یہ شادی واقعی کسی دین دار خاندان کی ہے یا اس میں شریک ہونے والی خواتین واقعی دین دار، پردے کی پابند، شریعت کی پاس دار اور سادگی کا پیکر ہیں:﴿وَفى ذ‌ٰلِكَ فَليَتَنافَسِ المُتَنـٰفِسونَ ﴿26﴾ شادی کے موقعے پر دف بجانے کی شرعی حیثیت شادی کے مروجہ رسموں میں خوشی کے شادیانے بجانے بھی ہیں، جس کی کئی صورتیں رائج ہیں۔ مثلاً،شادی سے قبل کئی دن تک محلے کی اور قریبی رشتے داروں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شادی والے گھر میں راتوں کو گھنٹوں ڈھولکیاں بجاتی اور گانے گاتی ہیں جس سے اہل محلہ کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر برات کے ساتھ بینڈ باجہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فلمی گانوں کی دھنوں پر ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا ہے اور اب منگنی کے موقعے پر بھی ایسا کیا جانے لگا ہے۔ تیسرے نمبر پر بہت سے لوگ میوزیکل شو کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ناچنے گانے والی پیشہ ور عورتیں اور مرد حصہ لیتے ہیں، جس میں بے حیائی پر مبنی حرکتوں اور بازاری عشقیہ گانوں سے لوگوں کو محظوظ کر کے ان کے ایمان و اخلاق کو برباد کیا جاتا ہے۔ چوتھے نمبر پر شادی ہال نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں اوّل سے آخر تک میوزک کی دھنوں سے گونجتا رہتا ہے اور اس طرح نکاح اور ولیمے کی بابرکت تقریبات بھی شیطان کی