کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 55
بالوں کے نئے نئے اسٹائل، بناؤ سنگھار کے ذریعے سے عورت کے حلیے کو بدل دینا، سیاہ فام کو سفید فام اور سفید فام کے رنگ و روغن کو مزید نکھار دینا، ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر ان میں سرمہ، روشنائی یا اور اسی قسم کی چیزیں بھرنا، یہ سب کام ممنوع اور حرام ہیں، کیونکہ انہیں لعنتی کام کہا گیا ہے۔ جن کے بارے میں اتنی سخت وعید ہو، ان کے جواز کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے؟ اب جس بیوٹی پارلر میں ایسے کام کئے جاتے ہیں جن کو زبان رسالت سے حرام قرار دیا جاچکا ہے تو اس طرح کے حرام کاموں کےارتکاب پر مبنی بیوٹی پارلر کا کاروبار بھی حرام ہے کیونکہ حرام کاموں کے کاروبار کی اجازت شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی جن اداروں میں ایسے حرام امور کی تربیت دی جاتی ہے، ان کی تعلیم وتربیت بھی ناجائز ہے ۔
8. ایک حدیث میں ہے:
((أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللّٰه إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم : «الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ)) [1]
''ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے ، اگر میں اس کے سامنے کسی چیز کی بابت یہ ظاہر کروں کہ یہ مجھے میرے خاوند نے دی ہے جب کہ وہ چیز اُس نے مجھے نہ دی ہو، تو کیا اس سے مجھ پر گناہ ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسے ظاہر کرے کہ یہ چیز، میری ہے (یا مجھے دی گئی ہے) حالانکہ (وہ اس کی نہ ہو) نہ اس کو دی گئی ہو، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکروفریب کے دو کپڑے پہنے ہو۔''
وضاحت: اس حدیث سے جہاں یہ و اضح ہوتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویوں کو آپس میں ایک دوسرے کو جلانے کے لیے (سوکناپے میں) جھوٹ بول کر یہ تأثر دینا منع ہے کہ اس کا خاوند (دوسری بیوی کے مقابلے میں) اس پر زیادہ مہربان ہے اور اِس کو اُس نے فلاں چیز لا کردی ہے جب کہ خاوند کا کردار ایسا نامنصفانہ نہ ہو۔ اس ممانعت سے مقصود جہاں جھوٹی شان
[1] صحیح بخاری:۵۲۱۹