کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 47
تعلیمات سے یکسر بے اعتنائی کا نمونہ۔ اس انداز سے شادیاں کرنا، یا ان میں ذوق و شوق سے شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا، یہ اسلام میں جاہلی طریقوں ہی کو فروغ دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں کیا مقام ہے وہ اس حدیث کی دوسری شق سے واضح ہے۔ دنیا میں تو انسان کا ہوا و ہوس میں مبتلا نفس اور شیطان اس کا پتہ نہیں چلنے دیتا، لیکن آخرت میں تو ان کی کارفرمائی ختم ہو چکی ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا وہ مقام واضح ہو کر سامنے آ جائے گا، جس کا ہیولیٰ اس نے اپنے عمل و کردار سے تیار کیا ہو گا اور وہ ہے، اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ترین شخص، اور اس روز ناپسندیدہ ترین شخص کا جو مقام ہو گا، اس کا اندازہ رسوماتِ جاہلیہ کے دل دادہ ہر مرد اور عورت کو کر لینا چاہیے۔ 4. حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلَام سُنَّةً حَسَنَةٌ فَلَهُ أَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ سَنَّ فِي الْاَسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِه مِنْ غَیْرِِ اَنْ یُنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْء)) [1] ''جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا، تو اس کوخود اس پر عمل کرنے کا اجر بھی ملے گا اور اُن کا بھی اجر ملے گا جو اُس کے بعد اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کچھ کمی ہو اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا تو اس پر (اس کے اپنے عمل کا بھی) بوجھ ہو گا اور ان سب کے گناہوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس برائی پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے بوجھوں میں کوئی کمی ہو۔'' وضاحت: اس حدیث میں'اچھا طریقہ' نکالنے یا جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے، کیونکہ یہ تو بدعت ہو گی جس کی بابت
[1] صحیح مسلم:۱۰۱۷