کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 38
اس کے اعضا بھی اس سے غداری کرتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کو یاد کرتاہے تودل ساتھ نہیں دیتا۔زبان ذکر کرتی ہے تودل غافل ہوتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ ایک بادشاہ کے پاس لشکر تو ہے لیکن جب وہ اس لشکر سےدشمن سے مدافعت کرناچاہتا ہے تو شکست کھا جاتاہے۔
39. حسن خاتمہ سے محرومی: سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ مرتے وقت اسے کلمہ کی توفیق نہیں ہوتی، کلمہ منہ سےنہیں نکلتا۔ دل اور زبان دونوں بے وفائی کرتے ہیں۔ خاتمہ بالخیر کی توفیق اسے ہی حاصل ہوتی ہے جو زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا خوگر ہوتا ہے۔
40. حق کی معرفت اورحق کو اختیارکرنے کی قوت سے محرومی: اس پر شیطان مسلط کردیاجاتاہے اور وہ نیک عمل نہیں کرسکتا۔انسانی کمال کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
﴿وَاذكُر عِبـٰدَنا إِبرٰهيمَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ أُولِى الأَيدى وَالأَبصـٰارِ ﴿45﴾[1]
''اور ہمارے بندوں، ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرو۔ بڑی قوتِ عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔''
'ذی الاید' سے مراد تنفیذ حق کی قوت اور 'اَبصار' کا مطلب حق کی معرفت ہے۔ جبکہ انبیاء علیہم السلام میں یہ دونوں قوتیں موجود ہوتی ہیں جبکہ :
﴿وَمَن يَعشُ عَن ذِكرِ الرَّحمـٰنِ نُقَيِّض لَهُ...﴿36﴾[2]
'' جو شخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔''
﴿قَرينًا فَساءَ قَرينًا 38﴾[3]
'' اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔''
﴿وَإِنَّهُم لَيَصُدّونَهُم عَنِ السَّبيلِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ ﴿37﴾[4]
''یہ شیاطین ایسے لوگو ں کو راہِ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔''
[1] سورة ص:45
[2] سورة الزخرف:36
[3] سورة النساء:38
[4] سورة الزخرف:37