کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 37
اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا۔''حالانکہ انسان کی پہلی قسم کا شمار علیین میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے : ((جعلت الذلة والصغار علىٰ من خالف أمري)) [1] ''میرے حکم کی مخالفت کرنے والے ہر ذلت اور خواری لازم کر دی گئی ہے۔'' غرض انسان جب گناہ کرتا ہے تو اپنے درجات سے گرجاتا اور مزید گرتا رہتا ہے، اور جب وہ اطاعتِ الٰہی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا درجہ بلند ہوتا چلا جاتا ہے،یہاں تک کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے۔ توبہ بعض اوقات اتنی وزنی ہوجاتی ہے کہ نیکی کا پلّہ جھک جاتا ہے۔ اگر وہ گناہ پر مُصر رہے توبعض اوقات گناہ ہمّت توڑ دیتا ہےاورتوبہ کی دوا بھی صحت تک پہنچنےکے لیےمدد نہیں کرتی۔ 38. گناہگار کے خلاف اللہ کی نافرمان مخلوق جری ہو جاتی ہے: وہ اسے تکلیف اور ایذا دیتی ہیں، پھر شیطان بھی جری اور دلیر ہوجاتے ہیں اورانسانی شیطان بھی جری ہوجاتے ہیں۔ گھر کے لوگ،خدام ،نوکر چاکر، بیوی اور اولاد اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس کا نفس بھی اس کے خلاف دلیر ہوجاتا ہے۔ وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو نفس سرکش ہوجاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت ایک مضبوط قلعہ ہے۔ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے ، وہ ایک مضبوط قلعہ میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے باہر نکلتا ہے، ڈاکو رہزن اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ 39. گناہگار کا دل اس سےغداری کرتاہے:اس کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے اس کے پاس تلوار توموجود ہومگرنیام میں زنگ آلود ہو۔ گناہوں سےدل زنگ آلود اورمفلوج ہوجاتا ہے۔نفس امارہ تو بُرائی کا حکم دیتاہی ہے،وہ شہوات و خواہشات اور گناہوں سے قوی، دلیر اور درندہ صفت بن جاتاہے جبکہ نفس مطمئنہ تو مرچکتا ہے۔ایساشخص دنیامیں، اور برزخ میں مرچکا اور آخرت میں بھی اس کے لیے کوئی خیر نہیں۔
[1] مسند احمد: 2/ 50