کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 32
میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا۔''یہ تمام انعاماتِ جلیلہ صرف اللہ کے بندوں کو حاصل ہوتے ہیں اور اللہ کے نافرمان ان سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ نیکو کاروں کو اللہ جل جلالہ نور ہدایت عطا کرتا ہے: ﴿قُل هُوَ لِلَّذينَ ءامَنوا هُدًى وَشِفاءٌ...﴿44﴾[1] '' اِن سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے۔'' اسی طرح نیکی کے راستے پر چلنا مشکل ہوجاتا ہے، اللہ کے راستے پر پختگی اور دوام کا قصد دل کی کمزوری کی وجہ سےمشکل ہوجاتا ہے۔چنانچہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں پناہ مانگا کرتے تھے: ((اللّٰه م إني أعوذ بك من الهمّ والحزن والعجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبة الرجال)) [2] ''اے اللہ ! تیری پناہ میں آتا ہوں فکر وغم اور کمزوری وسستی سے ، بزدلی و بخیلی سے اور قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے ۔'' جهد البلاء و درك الشقاء اور سوء القضاء و شماتة الأعداء دونوں، دونوں چیزیں باہمی قریب المعنیٰ ہیں۔ ان سے آپ پناہ مانگتے تھے۔ یہ تمام گناہ کے بد نتائج ہیں۔جواللہ کے انعامات اور خیر و عافیت سے انسان کو محروم کردیتے ہیں۔ 28. اللہ کی سپردگی اور نیکی کے حصار سے محرومی: گناہ کی ایک وعید قرآن کریم میں یہ بیان ہوئی ہے: ﴿وَما أَصـٰبَكُم مِن مُصيبَةٍ فَبِما كَسَبَت أَيديكُم وَيَعفوا عَن كَثيرٍ‌ ﴿30﴾[3] ''انسان پر آنے والی ہر مصیبت ، اس کی اپنی کمائی کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سی خطاؤں کونظر انداز کردیتا ہے۔''
[1] سورۃ فصلت: 44 [2] صحیح بخاری: 6363 [3] سورۃ الشوریٰ:30