کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 30
ایک طرف گناہوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف گناہگار کسی گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ بھینس اور بیل جس طرح اپنے سینگوں سے اپنی اور بچوں کی دشمن سے حفاظت کرتے ہیں،غیرت انسان کے لئے یہی درجہ رکھتی ہے۔ یہ سینگ ٹوٹ جائیں تو پھر شیطان کی صورت میں ازلی دشمن حملہ آور ہوجاتا ہے۔
23. حیاکا ختم ہو جانا: گناہوں کی وجہ سے حیا ختم ہوجاتی ہے جبکہ:(( الحیاء خیر کله)) [1]
حدیث میں ہے: ((إذا لم تستحي فاصنع ما شئت)) [2]
بے حیائی اور بے غیرتی جہاں ہوگی،گناہ لازم ہوں گے مگر جب انسان اللہ سے حیا اور شرم کرتا ہے اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہے تو اللہ بھی سزا دینےمیں شرم کرے گا۔
24. دل میں اللہ کی عظمت کم ہونا: اللہ کی عظمت کم ہوجاتی ہے، تب ہی تو انسان گناہ کرتا ہے۔ اللہ کی محرمات کی اہمیت نہ رہی تو دل پر پردہ پڑ جاتا اورمہر لگ جاتی ہے۔ جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے تو اللہ اُنہیں بھول جاتا ہے۔ اُنہیں برباد کردیتا ہے ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوجاتی ہے، جن لوگوں نے اللہ کے اوامر و احکام کو برباد کیا، وہ اللہ کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں اور﴿وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن مُكرِمٍ...﴿18﴾[3]
'' جسے اللہ ذلیل (برباد) کرے اللہ کوئی عزت نہیں دے سکتا۔''
25. اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی: ﴿وَلا تَكونوا كَالَّذينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسىٰهُم أَنفُسَهُم ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿19﴾[4]
''اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے اُنہیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔''اللہ بڑا بےنیاز ہے جبکہ بندہ ہرلمحے اس کا محتاج ہے۔پھر وہ اس کے ذکرسے کیسے غافل رہ سکتا ہے اور اگر غافل رہتا ہے تو اپنی جان پر خود ظلم کرتا ہے، کیونکہ اللہ تو اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں
[1] صحیح مسلم: 37
[2] صحیح بخاری: 6120
[3] سورۃ الحج :18
[4] سورۃ الحشر:19