کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 28
'' عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں: ''اے ہمارے ربّ! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔اے ہمارے رب! اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے) تو بلا شبہ قادر مطلق اور حکیم ہےاور بچا دے اُن کو برائیوں سے۔'' 19. عذابِ الٰہی کی وعید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مختلف گناہوں کے عذاب دکھائے گئے۔ سیدنا سمرۃ بن جندب سے تفصیلی حدیث[1] مروی ہے ، جس میں گناہوں کے ارتکاب پر مختلف سزائیں آپ کو دکھائی گئیں: جن میں قرآن کو بھلانے والا،نماز کا تارک،زناکار مرد اور عورتیں اور پتھر نگلنے والے سود خور کی سزاؤں کا تذکرہ ہے۔ 20. دنیاوی آفتیں: ﴿ظَهَرَ‌ الفَسادُ فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ لِيُذيقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم يَر‌جِعونَ ﴿41﴾[2] '' خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔'' یہ تو دنیا کےعذاب کا حال ہے جوکہ گناہوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ تمام اعمال کی سزا دی جائے تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے،آبادیاں دھنس جاتی ہیں۔زلزلے آتے ہیں۔ بارش نہیں ہوتی اورقحط پڑ جاتا ہے۔ اسی بنا پر قومِ ثمود کی آبادیوں سے روتے ہوئے جلدی نکلنے کا حکم دیا گیا۔
[1] صحیح بخاری: 7047 [2] سورۃ الروم :41