کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 26
پر جگہ دینے پرمجبور ہیں۔
15. عقل کا جاتے رہنا: گناہ عقل کو ختم کردیتے ہیں۔کیونکہ عقل اگر موجود ہوتی تو اسےگناہ سےباز کیوں نہ رکھتی۔ انسان اللہ کی مخلوق ہے،اس کےگھر کا ئنات میں رہتا ہے۔اس کا رزق کھا رہا ہے۔اللہ اسے خود دیکھ رہا ہے۔ ہدایت اسےروک رہی ہے۔ موت او رجہنم اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔اگروہ حقیقتاً عقل والاہوتا تو گناہ کیوں کرتا؟ ارشادِ باری ہے: ﴿إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿9﴾[1]
'' نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔''
16. دل کا مقفل ہونا : دل پر مہر لگ جاتی اور وہ غافل وبےخبر ہوجاتاہے۔ جب انسان ایک گناہ کرتاہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہےاور پھر گناہ پر اصرار کی وجہ سے آخر سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔پھر توبہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی،اسےکہتے ہیں:﴿خَتَمَ اللَّهُ عَلىٰ قُلوبِهِم وَعَلىٰ سَمعِهِم...﴿7﴾[2]''اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پر مہر لگا دی ہے۔''
﴿كَلّا ۖ بَل ۜ رانَ عَلىٰ قُلوبِهِم ما كانوا يَكسِبونَ ﴿14﴾[3]
''ہرگز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔''
﴿ثُمَّ قَسَت قُلوبُكُم مِن بَعدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالحِجارَةِ أَو أَشَدُّ قَسوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الحِجارَةِ لَما يَتَفَجَّرُ مِنهُ الأَنهـٰرُ ۚ وَإِنَّ مِنها لَما يَشَّقَّقُ فَيَخرُجُ مِنهُ الماءُ ۚ وَإِنَّ مِنها لَما يَهبِطُ مِن خَشيَةِ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ﴿74﴾[4]
'' مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں
[1] سورۃ الزمر:9
[2] سورۃالبقرۃ:7
[3] سورۃ المطفّفین :14
[4] سورۃ البقرۃ: 74