کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 25
مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ )). فَقَالَ بِهِ هَكَذَا[1] ''مؤمن اپنے گناہ کے بارے میں اس طرح پریشان ہوتا ہے گویا کہ وہ پہاڑ کے عین نیچے موجود ہے اور اسے اپنے اوپر پہاڑ کے گرنے کا خوف لاحق ہے، جبکہ کافر وفاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کی مانند ہلکا خیال کرتا ہے جو اس کے ناک پر بیٹھی اور یوں اپنے ہاتھ سے اس نے اس مکھی کو اُڑا دیا۔'' 13. گناہوں کی نحوست کا دوسروں پر اثر: انسانوں کو نہیں بلکہ جانوروں تک کو برباد کردیتی ہے۔قومِ نوح پر عذاب آیا تو جانور بھی ختم ہوگئے۔بارش رک جاتی ہے جبکہ استغفار کے ساتھ بارش ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا نتیجہ بارشوں کے نزول وبرکت کو قرار دیا ہے: ﴿فَقُلتُ استَغفِر‌وا رَ‌بَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارً‌ا ﴿10﴾يُر‌سِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدر‌ارً‌ا ﴿11﴾[2] '' میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔'' 14. گناہ، باعثِ ذلت : تمام عزتیں طاعتِ الٰہی سےہوتی ہیں، فرمان باری ہے: ﴿مَن كانَ يُر‌يدُ العِزَّةَ فَلِلَّهِ العِزَّةُ جَميعًا...10 ﴾[3] ''جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے ۔'' نیکی باعث عزت ہے۔ جو اللہ کے نزدیک ہوتا ہے، وہی عزت والا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انبیاءعلیہم السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک سنت (قربانی )پر دنیا کی اکثریت آج بھی عمل کرتی ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مسلم بھی دنیاکے سو بڑے آدمیوں میں پہلے نمبر
[1] صحيح بخاری: 6308 [2] سورہ نوح:10، 11 [3] سورۃ فاطر:10