کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 24
قرض دینے والے شخص سے دور بھاگتا ہے جب اس کے پاس ادائیگی کا انتظام نہ ہو، اسی طرح اللہ کا نافرمان اللہ کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے۔ انسان کا دل کمزور ہوجاتا ہے ۔ وہ توبہ کا ارادہ کرتاہے ، توبہ کرتا بھی ہے، لیکن اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ توبہ کی زبانی تکرار کےباوجود گناہوں پر اس کا اصرار جاری رکھتا ہے او ریہی اصرار آخرکار گناہِ صغیرہ کو بھی گناہ کبیرہ بنا دیتا ہے۔
11. گناہ پرفخر: گناہ کی نفرت ختم ہوجاتی ہے۔وہ لوگوں کی موجودگی میں بے باک و برملا ارتکابِ معصیت کرتا ہے بلکہ اپنے گناہوں کو فخر و غرور کے ساتھ بیان کرتا ہے، گناہوں کو اس طرح کھلم کھلا کرنے والوں کے لئے زبان رسالت سے سنگین وعید ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:
(( كُلُّ أُمَّتِى مُعَافًى إِلاَّ الْمُجَاهِرِينَ ، وَإِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلاً، ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ ، فَيَقُولَ يَا فُلاَنُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ)) [1]
''میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کوکھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کوکھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی(گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجودکہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگرصبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے ربّ نے اس کے گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کھولنے لگا۔ ''
12. گناہوں سے نفرت کا ختم ہونا: گناہوں کی نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ بڑے سےبڑا گناہ بھی اس کی نظر میں چھوٹامحسوس ہوتا اور اسےہلاک کردیتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن
[1] صحیح بخاری :6069،صحیح مسلم:2990